مٹ رومنی: رياستی امداد لينے والوں کے ليے سخت الفاظ
20 ستمبر 2012ريپبليکن پارٹی کے صدارتی اميدوار مٹ رومنی نے فلوريڈا ميں چندہ دينے والے امراء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امريکا کے 47 فيصد شہری جو نومبر ميں صدر اوباما کو ووٹ ديں گے، خود کو نا انصافی کا شکار سمجھتے ہيں۔ وہ سماجی فلاحی اداروں کی امداد پر انحصار کرتے ہيں اور کوئی انکم ٹيکس ادا نہيں کرتے۔ درحقيقت مٹ رومنی کے پاس اوباما کی سياسی پاليسی پرتنقيد کرنے اور خود کو ايک بہتر متبادل کے طور پر پيش کرنے کے بہت سے مواقع ہيں کيونکہ اوباما اپنے چار سالہ عہد صدارت ميں وہ تمام اميديں پوری نہيں کر سکے ہيں، جو انہوں نے دلائيں تھيں۔ بيروزگاری کی آٹھ فيصد شرح امريکا کے لحاظ سے کافی زيادہ ہے۔ ليکن رومنی بار بار اپنے مواقع گنوا ديتے اورعوام کی ہمدردی حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہيں۔ وہ سماجی لحاظ سے ضرورتمندوں سے کم ہی ہمدردی ظاہر کرتے ہيں۔
انہوں نے فلوريڈا ميں اپنی تقرير ميں يہ بھی کہا کہ وہ سماجی بہبود کے فنڈ سے رقوم وصول کرنے والوں کو کبھی اس کا قائل نہيں کر سکيں گے کہ وہ ذاتی ذمہ داری خود سنبھاليں اور اپنی ضروريات خود پوری کرنے کی کوشش کريں۔ اس ليے ان کا کام ان لوگوں پر توجہ دينا نہيں ہے۔
فری يونيورسٹی برلن کے جان ايف کينيڈی انسٹيٹيوٹ کے ليکچرار کرسٹيان لامرٹ نے ڈوئچے ويلے سے باتيں کرتے ہوئے کہا کہ مٹ رومنی اس قسم کے سخت الفاظ سے خود اپنا نقصان کر رہے ہيں: ’’ان سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عام امريکيوں سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہيں رکھتے۔ ايک صدارتی اميدوار کو اپنی انتخابی مہم کے دوران پورے معاشرے کو مخاطب کرنے کے قابل ہونا چاہيے۔‘‘
لامرٹ نے کہا کہ اس کے باوجود اُن کے الفاظ کی امريکا ميں اُتنی مخالفت نہيں کی جائے گی، جتنی جرمنی ميں ہوتی۔ امريکا ميں رياستی فلاحی امداد وصول کرنے والوں کو اکثر کاہل اور محنت نہ کرنے والے مفت خور سمجھا جاتا ہے۔
لامرٹ نے کہا کہ فلوريڈا ميں رومنی کے جلسے کے امير شرکاء کے کانوں کے ليے تو يہ الفاظ شايد خوشگوار رہے ہوں گے ليکن رومنی سے اندازہ لگانے ميں غلطی ہوئی کيونکہ اقتصادی بحران کے اس دور ميں متوسط طبقے کے بھی بہت سے افراد معاشی مشکلات ميں گھرے ہوئے ہيں ليکن رومنی نے سب ہی کو ايک ہی خانے ميں ڈال ديا۔
R.Gessat,sas/ia