ميانمار ميں جمہوريت کی پيش قدمی
13 فروری 2012ميانمار میں اب اپوزيشن کی قومی ليگ برائے جمہوريت ممنوع نہيں رہی اور اُس کی چيئر پرسن امن کی نوبل انعام يافتہ آنگ سان سُوچی کو بھی کئی عشروں کی نظربندی سے رہائی مل چکی ہے جو اب انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔
ميانمار کی مشہور اپوزيشن ليڈر آنگ سان سوچی يکم اپريل کو پارليمنٹ کی 48 نشستوں کے ضمنی انتخابات کے ليے مہم ميں مصروف ہيں۔ 66 سالہ سياسی رہنما جہاں بھی جاتی ہيں، وہاں عوام کا ہجوم اُن کے گرد جمع ہوجاتا ہے۔ وہ ملک کے مستقبل کی علامت بن گئی ہيں۔
يکم اپريل کے انتخابات اپوزيشن کی قائد آنگ سان سوچی اور اُن کی جمہوريت کی قومی ليگ کے ليے 20 سال کے بعد پہلا امتحان ہيں۔ ميانمار ميں کسی کو بھی اس ميں شک نہيں کہ انتخابات کے مراحل کاميابی سے طے ہو جائيں گے۔
آنگ سان سوچی پچھلے 20 برسوں کے دوران شايد ہی کبھی ینگون سے باہر نکلی تھيں کيونکہ وہ زيادہ تر اپنے گھر ميں نظربند رہی تھيں۔ اب وہ پورے ملک کا سفر کر رہی ہيں۔ ینگون سے کوئی 250 کلوميٹر دور انہوں نے ايڈز کے ايک پراجيکٹ کا دورہ کيا اور ايک جم غفير کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’تمام لوگوں کو سمجھنے کے ليے بہت سے افراد سے بات کرنا ضروری ہے۔ مجھے يہ کام انجام دينے کے ليے سب کی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
ليکن وہ ہميشہ ہی سب سے بات نہيں کر سکتيں۔ منڈالائی ميں انہوں نے اپنا ايک جلسہ منسوخ کر ديا ہے۔ حکام ابتدائی منظوری کے باوجود اب اُنہيں بڑے فٹ بال اسٹيڈيم ميں جلسہ کرنے کی اجازت نہيں دے رہے ہيں۔ آنگ سان سوچی ايک زبردست حريف ہيں۔ اُن کی پشت پر ميانمار کی پوری اپوزيشن جمع ہے۔ ان ميں سن 1988 کے طالبعلم ليڈر بھی ہيں جنہيں حال ہی ميں جيل سے رہائی ملی ہے۔ اُنہی ميں سے ايک کوکوگی بھی ہيں: ’’پارليمانی نشستوں کے ضمنی انتخابات ايک موقع بھی ہيں اور چيلنج بھی۔ ان ميں حصہ لينا ايک دلی فيصلہ بھی ہے اور ہم آنگ سان سوچی کی حمايت کرتے ہيں۔‘‘
آزاد ہفت روزہ The Voice کے مدير اعلٰی سو کائی نے کہا: ’’ ميری ذاتی رائے يہ ہے کہ آنگ سان سوچی کو ان انتخابات ميں بہت شاندار کاميابی حاصل ہو گی۔‘‘ تاہم ميانمار ایک آزاد جمہوری ملک کے طور پر ابھی ايک لمبا سفر طے کرنا ہے۔
رپورٹ: اُوڈو شمٹ، سنگاپور / شہاب احمد صديقی
ادارت: افسر اعوان