موصل کے بچوں کی حالت زار پر ایمنسٹی کی رپورٹ
22 دسمبر 2016انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک تازہ رپورٹ میں عراقی شہر موصل کے بچوں کی حالت زار کو واضح کیا ہے۔ ایمنسٹی کی ایک ماہر دوناتیلا روویرا نے شمالی عراق سے واپس آنے کے بعد یہ رپورٹ ترتیب دی ہے، جس کے مطابق موصل میں جاری لڑائی کی وجہ سے بچوں کی ایک بڑی تعداد صدمے کا شکار ہے اور اس میں ہر عمر کے بچے شامل ہیں۔ ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
روویرا کے بقول: ’’میں ایسے بچوں سے ملی ہوں، جنہوں نے صرف ہولناک زخم ہی برداشت نہیں کیے ہیں بلکہ ان بچوں نے اپنے رشتہ داروں کو اور پڑوسیوں کو مارٹر حملوں میں مرتے دیکھا ہے،کار بم حملوں یا بارودی سرنگ کے دھماکے میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے یا کسی میزائل حملے میں تباہ ہونے والے گھر کے ملبے تلے مرتے دیکھا ہے۔‘‘
دوناتیلا روویرا نے اس رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ وہ ایزدی اقلیت سے تعلق رکھنے والے اُن بچوں سے بھی ملیں، جو اسلامک اسٹیٹ کے قبضے سے آزاد ہو کر واپس اپنے گھروں کو پہنچے ہیں۔ اُن کے بقول یہ بچے ابھی تک اس اذیت ناک وقت سے جان نہیں چھڑا سکے ہیں:’’ گیارہ سالہ بچیوں تک کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا جبکہ کم عمر لڑکوں کو عسکری تربیت دی گئی۔ اس دوران انہیں زبردستی قتل و غارت گری دکھائی گئی اور سکھایا گیا کہ کس طرح کسی انسان کا سر قلم کیا جاتا ہے۔‘‘
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت کی ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ موصل انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے اور شہر کے تمام ہسپتالوں اور مراکز میں گنجائش سے زیادہ لوگ موجود ہیں۔