فرانس میں سوشلسٹ اپوزیشن کے صدارتی امیدوار کا اعلان
17 اکتوبر 2011اپوزیشن نے اولاند کے نام کی منظوری پارٹی کی جانب سے دو تہائی سے زائد اکثریت سے دی۔ سوشلسٹوں کو یقین ہے کہ اولاند سارکوزی کو شکست دے کر تقریباﹰ 17 سال بعد ایک مرتبہ پھر اپنی جماعت کو ایلیزے پیلس تک رسائی دلوا سکیں گے۔
پارٹی کی جانب سے اولاند کو دو ملین سے زائد ووٹوں سے اگلا صدارتی امیدوار چنا گیا۔ ان کا مقابلہ پارٹی کی خاتون سربراہ Martine Aubry سے تھا، جن کا شمار بائیں بازو کے زیادہ قدامت پسند رہنماؤں میں ہوتا ہے۔
پیرس میں سوشلسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹرز میں اپنے امیدوار چنے جانے کے بعد اولاند کا کہنا تھا کہ ان کے سامنے ایک ’سخت معرکہ‘ ہے۔ ان کا اشارہ اگلے برس ہونے والے صدارتی انتخابات کی جانب تھا، جو 22 اپریل اور چھ مئی کو دو مرحلوں میں منعقد ہونا ہیں۔
’’میں اپنے سامنے رکھے گئے ہدف سے بخوبی واقف ہوں۔ یہ ایک بڑا ہدف ہے۔ مجھے فرانسیسی عوام کی توقعات کو سامنے رکھنا ہے، جو نکولا سارکوزی کی پالیسیوں سے تنگ آ چکے ہیں۔‘‘
عوامی جائزوں سے واضح ہوتا ہے کہ فرانسیسی عوام اگلے انتخابات میں سوشلسٹوں کو ووٹ دینے پر آمادہ ہیں اور نکولا سارکوزی کی عوامی مقبولیت میں خاصی کمی آ چکی ہے۔ نکولا سارکوزی دوسری مدتِ صدارت کے لیے میدان میں اترنے پر مُصر دکھائی دیتے ہیں۔
اگر آئندہ انتخابات میں سوشلسٹوں کو فتح حاصل ہو گئی تو 1988ء میں Francois Mitterrand کے دوبارہ انتخاب کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ وہ اقتدار میں آ جائیں گے۔
اس سے قبل سوشلسٹوں کی طرف سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سابق سربراہ ڈومینیک اسٹراؤس کاہن کو میدان میں اترنا تھا، تاہم رواں برس مئی میں نیویارک کے ایک ہوٹل کی ایک ملازمہ کی جانب سے ان پر جنسی حملے کے الزامات کے بعد انہیں آئی ایم ایف کی سربراہی کے ساتھ ساتھ صدارتی عہدے کے لیے ممکنہ دوڑ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے، حالانکہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات اب ختم ہو چکے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ چونکہ سیاسی اعتبار سے اولاند خاصے غیر معروف ہیں اور انہیں اب تک کسی اہم سرکاری عہدے پر خدمات سرانجام دینے کا موقع نہیں ملا، اس لیے کم از کم یہ بات ان کی صدارتی امیدواری کے خلاف جاتی ہے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک