فرانسیسی فلاحی ادارے ’جنگل کیمپ‘ کی بندش کے خلاف عدالت میں
13 اکتوبر 2016ان فرانسیسی فلاحی تنظیموں کے وکلاء میں سے ایک خاتون وکیل جولی بونیئر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ انخلاء کیمپ میں رہنے والے ہزاروں مہاجرین کے بنیادی حقوق پر حملے کے مترادف ہے۔‘‘ بونیئر نے مزید کہا، ’’ہمیں خدشہ ہے کہ مسئلے کا طویل المدتی حل تلاش نہیں کیا گیا۔ وہ لوگ جو یہاں سے نکالے جا رہے ہیں، ان کی بنیادی حقوق اور ضروریات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘‘ بونیئر نے اس سال فروری میں بھی ’جنگل‘ نامی اس مہاجر کیمپ کے جنوبی حصے کے انہدام کو رکوانے کی کوشش کی تھی۔
فرانس کے شمالی شہر لِیل کی انتظامی عدالت اس کیس پر اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر اپنا فیصلہ جاری کرنے والی ہے۔
فرانسیسی حکومت کیلے کے نواحی علاقے میں واقع مہاجرین کے اس ’جنگل‘ کیمپ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ تارکینِ وطن کی اس بستی میں فی الوقت نو ہزار مہاجرین قیام پذیر ہیں۔ فرانس اور برطانیہ کو ملانے والی زیر سمندر سرنگ کے قریب واقع فرانسیسی علاقے میں مقیم یہ مہاجرین غیرقانونی طور پر سرنگ پار کر کے برطانیہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور کئی بار ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں میں چھپ کر برطانیہ جانے کی کوشش میں ان میں سے متعدد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
فرانس میں تارکینِ وطن کی عارضی منتقلی کا یہ معاملہ یورپ میں مہاجرین کے بحران کے تناظر میں نہ صرف سیاست دانوں کے مابین اختلاف رائے کا باعث بنا ہوا ہے بلکہ اسی باعث فرانس اور برطانیہ کی حکومتوں کے درمیان ایک مستقل تناؤ بھی موجود ہے۔
تارکینِ وطن اور غربت کا شکار افراد کے لیے کام کرنے والے ادارے ’ایماؤس‘ سمیت فرانس کی سات فلاحی تنظیموں کا موقف ہے کہ ’جنگل‘ نامی اس مہاجر بستی کو ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ دوسری جانب فرانس میں سیاسی پناہ کے امور کی نگران ایجنسی کے سربراہ پاسکل بریس نے کیلے کی مہاجر بستی کے معاملے پر فرانسیسی فلاحی تنظیموں کے عدالت سے رجوع کرنے کے تناظر میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انخلاء کے منصوبے پر کام جاری رہے گا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بریس کا کہنا تھا کہ فرانسیسی ساحلی شہر کیلے کے قریب ’جنگل‘ نامی مہاجر کیمپ کا معاملہ اب ختم ہو چکا ہے۔
ایک اور خیراتی ادارے France Terre d'Asile کا کہنا ہے کہ ’جنگل‘ کیمپ میں قریب 1300 نابالغ افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس سے قبل رواں برس اگست کے آخر میں ایک اندازے کے مطابق وہاں مقیم نابالغ تارکین وطن کی تعداد 861 بتائی گئی تھی۔ مہاجرین کے لیے کام کرنے والے ایک فلاحی ادارے کے سربراہ پیئر ہنری کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے پیر اور منگل کے روز کی گئی مردم شماری کے مطابق نابالغ افراد کی تعداد 1290 تھی، جن میں سے 500 بچوں کے خاندان برطانیہ میں ہیں۔ ہنری کا کہنا تھا کہ 95 فیصد بچوں نے برطانیہ جانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
اس سے قبل گزشتہ پیر کے روز فرانسیسی وزیرِ داخلہ برنار کازینیو نے کہا تھا کہ کیلے کے قریب واقع اس مہاجر کیمپ میں مقیم اُن سینکڑوں بچوں کو جن کے خاندان برطانیہ میں ہیں، اپنے ہاں قبول کرنا برطانیہ کا اخلاقی فرض ہے۔ گزشتہ ہفتے کیلے کے ایک دورے کے موقع پر فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے اعلان کیا تھا کہ سال کے آخر تک اس مہاجر بستی کو ختم کر دیا جائے گا۔