عراق جنگ اور امریکہ
19 مارچ 2008والوں کی یاد بھی تازہ کی جائے گی اور پُر زور انداز میں یہ مطالبہ بھی کیا جائے گا کہ عراق سے امریکی دستے واپس بلائے جائیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کی خوہاں ہلیری کلنٹن نے بھی پیر کے روز ایک ایسی جنگ سے امریکی دَستوں کے فوری انخلاءکا مطالبہ کیا تھا، جو اُن کے بقول امریکہ نہیں جیت سکتا۔ کلنٹن برسرِاقتدار آنے کے ساٹھ روز کے اندر اندر جبکہ سینیٹر بارک اوبامہ سولہ ماہ کے اندر اندر امریکی دَستوں کی واپسی شروع کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ تاہم امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش نے آج ایک بار پھر یہی کہا کہ پانچ سال پہلے عراق میں فوجی پیش قدمی کا فیصلہ درست تھا۔
امریکی محکمہء دفاع میں اپنے خطاب میں بُش نے کہا کہ صدام حسین کا تختہ الٹنا درست اقدام تھا اور یہ ایک ایسی جنگ ہے، جو امریکہ جیت سکتا ہے بلکہ اُسے جیتنا ہو گی۔ مزید برآں آج کا عراق ایک ایسی جگہ بن چکا ہے، جہاں عرب اور امریکی شانہ بشانہ لڑتے ہوئے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کو نکال باہر کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ بُش نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی صورت میں وہاں ایک ایسا خلاء پیدا ہو جائے گا، جس میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔
کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار نائب امریکی صدر ڈِک چینی پہلے ہی کر چکے ہیں، جو پیر اور منگل کو دو روزہ دَورے پر عراق میں ہی تھے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا اپنے دَستے واپس بلانے اور یوں اپنے عراقی دوستوں کا ساتھ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اِس وقت امریکہ کے تقریباً ایک لاکھ اٹھاون ہزار فوجی عراق میں سرگرمِ عمل ہیں۔
امریکہ کے برعکس اُس کے سب سے بڑے حلیف برطانیہ کے فوجیوں کی تعداد، جو 2003ء میں جنگ کے آغاز پر40 ہزار تھی، اب محض 4,100 رہ گئی ہے اور یہ فوجی بھی ممکنہ طور پر اِس سال کے آخر تک واپس بلا لئے جائیں گے۔