عالمی آبادی سات ارب: سياسی اور اقتصادی چيلنج
31 اکتوبر 2011جرمنی کی آبادی سن 2000 ميں 82 ملين تھی۔ سن 2050 ميں وہ 71 ملين رہ جائے گی۔ جرمنی کے يورپی ہمسايہ ممالک ميں بھی آبادی ميں کمی کا يہی رجحان ہے۔ ليکن عالمی رجحان اس کے برعکس ہے اور بہت سے ملکوں ميں آبادی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔
دنيا کی آبادی سات ارب ہو جانے پر فکر کی کوئی بات نہيں ہے۔ عالمی وسائل اتنے ہيں کہ وہ ہم سب کے ليے کافی ہيں۔ اصل بات يہ ہے کہ عالمی آبادی ميں اضافے کے سياسی اور اقتصادی نتائج کيا ہوں گے اور اُن سے نمٹنے کے ليے سياست ميں کن تبديليوں کی ضرورت ہے؟
ترقی پذير اور ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک اور صنعتی طور پر ترقی يافتہ ملکوں کے باہمی روابط ميں تبديلی آ رہی ہے۔ دنيا کے غريب ترين علاقوں ميں آبادی سب سے زيادہ تيزی سے بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب يورپ کی آبادی ميں کمی کا رجحان برقرار ہے اور وہاں کے معاشروں ميں عمر رسيدہ افراد کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔
ماہرين کا اندازہ ہے کہ يورپ کو اپنے معيار زندگی اور سماجی تحفظ کے نظاموں کو برقرار رکھنے کے ليے بيرونی ممالک سے 25 ملين تارکين وطن کی ضرورت ہے۔ يورپ وہ واحد خطہ ہے، جہاں اگلے عشروں کے دوران آبادی ميں کمی ہوگی۔ صرف اسی وجہ سے ہی يورپ کی اقتصادی نمو کی رفتار بھی بہت زيادہ سست پڑ جائے گی۔
ليکن يورپ کی خارجہ اور اقتصادی سياست کے علاوہ ترقياتی سياست بھی دنيا کے دوسرے علاقوں ميں آبادی ميں اضافے کے نتائج کے سلسلے ميں بہت سست رد عمل ظاہر کر رہی ہے۔ جرمنی کے ہمسايہ يورپی ممالک کئی معاملات ميں مل جل کر سياسی پاليسی تشکيل دينے کی کوشش کر رہے ہيں، ليکن جب اقتصادی اور خاص طور پر معدنی تيل، جيسے قيمتی خام مال کی بات آتی ہے تو ہر ملک اپنے فائدے ہی کی سوچتا ہے۔
سات يا نو ارب کی عالمی آبادی کی سياست کی بنياد قومی سياست اور صرف اپنے اپنے قومی مفادات اور خود غرضی پر نہيں رکھی جا سکتی۔ امريکہ کی طرح تنہا عالمی پوليس کا کردار ادا کرنے اور بحران کی لپيٹ ميں آئے ہوئے علاقوں ميں مداخلت کی سياست بھی لمبی مدت کے اعتبار سے ناکام ہی رہے گی۔ اس کے بجائے کثيرالقومی سوچ اور اداروں کی ضرورت ہے۔
تاہم نو ارب کی عالمی آبادی کی اجتماعی بھلائی کے ليے سياست کا مطلب خود اپنے مفادات کی قربانی اور عالمی وسائل کی منصفانہ تقسيم بھی ہے، جس کے اثرات يورپی اقتصادی حکمت عملی اور اشيائے صرف اور وسائل کے استعمال کے سلسلے ميں بھی ہمارے طرز عمل پر پڑنا چاہئيں۔ ہميں اپنے اقتصادی فائدوں کے ليے دنيا کے مختلف علاقوں ميں معاشی نا ہمواريوں ميں اضافہ کرتے رہنے کی پاليسی کوترک کرنا ہوگا۔
تبصرہ: اُوٹے شيفر
ترجمہ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک