1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلاب کی تباہی اور مون سون برائیڈز

11 ستمبر 2024

پاکستان میں قدرتی آفات جیسے کہ سیلاب کے بعد بچیوں کی کم عمری میں شادی کا مسئلہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ بچیوں کو کم عمری میں شادی کے لیے فروخت تک کیا جا رہا ہے اور انہیں ''مون سون برائیڈز‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4kUe2
DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
تصویر: privat

غالب کا مشہور شعر ''ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘ شاید سوالیہ نشان کے بغیر ہے لیکن یہ سوال ان تمام عورتوں کے دل و دماغ میں گونجتا ہے جو قدرتی آفات کا سب سے پہلے سامنا کرتی ہیں اور سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ یہ سوال ان لڑکیوں کے بارے میں بھی ہے جو ناگہانی آفات اور غربت کے دوہرے بوجھ تلے دب کر ساری زندگی قربانی کا بکرا بن جاتی ہیں۔

سندھ کے دیہی علاقوں میں مون سون کی تباہ کن بارشوں اور سیلاب نے سب سے زیادہ انہی کم عمر لڑکیوں کو متاثر کیا ہے۔ ان لڑکیوں کو مالی مشکلات کی وجہ سے شادی کے لیے فروخت کیا جا رہا ہے۔ سجاگ سنسار نامی این جی او کی فراہم کردہ اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق خان محمد ملہ گاؤں میں گزشتہ سال مون سون کی بارشوں کے بعد سے اب تک 45 کم عمر لڑکیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں، جن میں سے 15 صرف اس سال مئی اور جون کے درمیان ہوئیں۔

سندھ کے دیہی علاقوں میں 2022ء کے تباہ کن سیلابوں کے بعد معاشی بحالی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی ہے۔ 2024ء میں کسانوں کو پہلی بار گندم کی فصل کاشت کرنے کا موقع ملا لیکن اس کا متوقع فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔ باغات، جو سندھ کی معیشت کا اہم حصہ تھے، سیلاب کی زد میں آکر تباہ ہو گئے اور کپاس کی فصل کو مزید بارشوں نے نقصان پہنچایا۔ سندھ کی دیہی معیشت کا انحصار مویشیوں اور زراعت پر ہے اور جب یہ ذرائع ختم ہو گئے تو مالی بدحالی نے خاندانوں کو اس حد تک بےحس کر دیا کہ وہ اپنی بچیوں کو شادی کے لیے فروخت کرنے کو سماجی حق سمجھنے لگے۔

یہ المیہ ایک ایسے معاشرے میں جنم لے رہا ہے، جہاں ایک طرف عورت کو عزت اور پردے کے تحفظ کے نام پر پابند کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اسے مالی مشکلات کے پیشِ نظر ایک جنس بنا کر فروخت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ دوہرا معیار نہ صرف بچیوں سے ان  کا بچپن چھین رہا ہے بلکہ انہیں تعلیمی مواقعوں اور خودمختاری سے بھی محروم کر رہا ہے۔

سال کے آغاز میں، مجھے ایک ریسرچ پروجیکٹ میں کام کرنے کا موقع ملا جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں پرائمری سے سیکنڈری اسکول کے دوران لڑکیاں تعلیم کیوں چھوڑ دیتی ہیں۔ لاڑکانہ کی ایک بچی کی والدہ سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی اتنی جلدی کیوں کر دی تو ان کا جواب تھا، ''یہ فیصلہ ہم نے سیلاب کی وجہ سے کیا کیونکہ سیلاب کے دوران ہم بے گھر ہو گئے تھے۔‘‘ یہ بیان اس المناک حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ کس طرح سیلاب اور مالی دباؤ نے سندھ کے دیہی علاقوں کی بچیوں کو ان کے بچپن اور تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔

یہ مسئلہ صرف مالی مشکلات تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے پیچیدہ سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی رویوں میں اس قدر بے حسی آ چکی ہے کہ بچیوں کی کم عمری میں شادی اور ان کی فروخت کو ایک سماجی حق اور حقیقت سمجھا جا رہا ہے۔ روایتی پابندیوں، مالی دباؤ اور معاشرتی بدحالی نے ایک ایسا المیہ جنم دیا ہے، جس کے اثرات نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26