1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال: خطرناک رجحان

4 نومبر 2022

عمران خان پر حملے کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے ملزم کے انکشافات نے کئی حلقوں کو حیران کر دیا ہے اور سماجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مذہب اور سیاست کو علیحدہ نہ کیا گیا، تو اس کے بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4J56E
Pakistan | Imran Khan
تصویر: PPI/Zumapress/picture alliance

واضح رہے کہ عمران خان پر حملہ کرنے والے ملزم نے پولیس کی تحویل میں ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں اس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ڈاکٹر اسرار احمد اور تحریک لبیک پاکستان کے رہنما مرحوم خادم حسین رضوی  اور ان کے بیٹے سعد رضوی کے خطابات اور لیکچرز سنتا تھا۔

ملزم نے عمران خان پر حملہ کی مذہبی وجوہات بیان کی ہیں، جس سے معاشرے کے حلقوں میں خوف پھیل گیا ہے اور وہ مذہب کے سیاسی استعمال پر پریشان نظر آتے ہیں۔

تاریخی تناظر

معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کیونکہ پاکستان کی بنیاد مذہبی سیاست پر رکھی گئی تھی، اسی لیے یہاں پر شروع سے ہی مذہبی طبقات کا اثر رسوخ رہا ہے اور تمام سیاستدانوں نے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سب سے پہلے لیاقت علی خان نے کشمیر میں قبائلیوں کی یلغار کو جہاد قرار دیا اور یوں ہماری فوج ایک جہادی قوت بن گئی۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا مودودی کے علاوہ اس یلغار کو سب سیاسی رہنماوں نے جہاد کہا۔‘‘

ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق مذہبی رجحان کے لیے دوسرا محرک سرد جنگ تھی۔  ''اس جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی بننا چاہتا تھا اور اسی لیے لیاقت علی خان سمیت سارے رہنماؤں نے مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا اور مغرب کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ کمیونزم کے خلاف ہیں۔ لیاقت علی خان نے امریکہ میں جو تقریر کی وہ بھی اس بات کی غماز ہے۔‘‘

ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق ایک بار جب یہ روایت شروع ہوگئی ، تو پھر سب نے ہی اسے استعمال کیا۔ ''ایوب خان نے بھی مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا، تاہم وہ مذہب کی ایک ترقی پسند تشریح چاہتا تھا جبکہ ذوالفقارعلی بھٹو نے آئین کو بہت زیادہ مذہبی رنگ دیا اور جنرل ضیا نے مذہبی قوانین بنا کر اور مولویوں کی ریاستی سطح پر مدد کر کے ملک کو انتہا پسندی کی طرف دھیکلا۔‘‘

آل انڈیا مسلم لیگ نے مذہب کا سہارا کیوں لیا

ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان بناتے وقت نہ کوئی معاشی منصوبہ بنایا تھا اور نہ ہی یہ طے کیا تھا کہ آئین کس طرح بنے گا۔ ''جب پاکستان بن گیا اور پاکستان کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا تو عوام کی توجہ معاشی مسائل سے ہٹانے کے لیے انہیں مذہبی امور پر لگا دیا گیا، جس کے بھیانک نتائج اب ہم بھگت رہے ہیں۔‘‘

مذہبی کارڈ کا استعمال

پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق صرف نیشنل پارٹی اپنے منشور  میں اپنے آپ کو واضح طور پر ایک سیکولر جماعت کہتی ہے۔ انتخابی سیاست سے دور کچھ بائیں بازو کی جماعتیں بھی مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی سخت مخالف ہیں لیکن قومی سیاست میں جلوہ گر تقریبا تمام جماعتیں مذہبی کارڈ استعمال کرتی ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور وہ اب بھی مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں، جو بہت ہی خطرناک ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی کے سیاستدانوں کے علاوہ حالیہ دور کے سیاستدانوں نے بھی مذہبی کارڈ کو خوب استعمال کیا۔ نواز شریف نے شریعت بل نافذ کرنے کی کوشش کی۔ توہین رسالت بل میں ترمیم کی اور جنرل ضیاء کے نظریے کو فروغ دینے کی بات کی۔ بے نظیر بھٹو نے مذہبی علامات کو فروغ دیا اور اور عوامی جگہوں پر تسبیح پڑھنے کا رجحان بھی بے نظیر نے ہی شروع کیا تھا۔ عمران خان نے بھی مذہب کو خوب استعمال کیا۔‘‘

سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ریسرچر ڈاکٹر ناظر محمود کا کہنا ہے کہ ملک میں مذہب کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری سیاسی جماعتوں میں جب رہنما مذہبی اقلیتوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو سیاسی جماعتوں کے قائدین ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے۔ مثال کے طور پر کیپٹن صفدر اور جاوید لطیف کے خلاف اس بنیاد پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔‘‘

ڈاکٹر ناظر کے مطابق جو لوگ رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، انہیں بہت احتیاط سے بولنا چاہیے۔ ''لیکن ہمارے ہاں تو چیف جسٹس بھی مذہبی اقلیتوں کے خلاف بول دیتے ہیں اور سیاسی رہنما بھی۔ ان کے ان نفرت انگیز بیانات کا عوام پر اثر ہوتا ہے اور انتہا پسندوں کو حوصلہ ملتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر ناظرمحمود کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے کہ سیاسی جماعتیں فوری طور پر ایسے ارکان کی رکنیت کو معطل کریں جو کسی بھی مذہبی اقلیت کے خلاف نفرت پھیلانے میں ملوث ہو۔ ''لیکن ملک جس طرح مذہبی جنونیت کی طرف جا رہا ہے اس میں یہ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔‘‘

 مذہب کا انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے

تاہم مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کچھ سیکولر عناصر مذہب کو اور مذہبی جماعتوں کو بدنام کرنے کے لیے انتہا پسندی کا تعلق مذہب سے جوڑتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی سابق رکن پارلیمان ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جماعت اسلامی ایک مذہبی پارٹی ہے اور جتنی معتدل مزاج اور پرامن جماعت اسلامی ہے، شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسی سیاسی جماعت ہو۔ ہم نہیں سمجھتے کہ انتہاپسندی اور سیاسی عدم رواداری اور مذہب کا کوئی آپس میں تعلق ہے بلکہ سیکولرعناصر زیادہ انتہا پسند ہیں اور انہوں نے تاریخ میں زیادہ  تشدد سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔‘‘

سمیعہ راحیل کے مطابق اگر آپ عالمی سطح پر نظر ڈالیں تو امریکہ  اور دوسری عالمی طاقتوں نے سب سے زیادہ دوسرے ممالک کے خلاف طاقت استعمال کی اور تشدد کے رجحان کو پروان چڑھایا۔

حملوں اور الزامات کا سلسلہ

واضح رہے کہ پاکستان میں عمران خان پر حملے سے پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف پر ایک انتہا پسند نے جوتا پھینکا تھا۔ نون لیگی رہنما احسن اقبال پر فائرنگ کی گئی تھی۔ اس سے پہلے پی پی پی کے رہنما سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کو قتل کیا گیا تھا۔ جب کہ کچھ عناصر نے شیری رحمان سمیت کئی سیاست دانوں کے خلاف توہین مذہب کے الزامات بھی لگائے۔ فیض آباد دھرنے کے موقع پر وفاقی وزیر زاہد حامد کو کچھ عرصے کے لیے ملک چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔

پاکستان میں اس طرح کے الزامات صرف سیاست دانوں پر ہی نہیں لگے بلکہ گلوگار جنید جمشید سمیت کچھ اداکاروں کو بھی ان ہی طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا جب کہ خواتین کے حقوق کے لیے لڑنے والی کارکنان کو بھی ان الزامات میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی۔