سوچی کے خلاف مقدمے کی سماعت پیر کو
25 جولائی 2009ینگون میں سوچی کے خلاف مقدمے کی سماعت مئی میں شروع ہوئی تھی۔ نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو اُسی مہینے نظر بندی کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور ینگون کی انسین جیل میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعت نیشنل لیگ برائے جمہوریت NLD کی رہنماسوچی کے وکیل نائن ِون نے عدالتی کارروائی کے بعد نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیر کو مقدمے کی اگلی سماعت میں استغاثہ کے وکلاء اپنے دلائل پیش کریں گے۔ ون کا کہنا ہے، انہیں قطعی اندازہ نہیں کہ مقدمے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ وکیل صفائی نے مزید کہا کہ اگرچہ ان کی مؤکلہ کے دفاع میں کافی مضبوط دلائل موجود ہیں، مگر سوچی کسی بھی ناخوشگوار فیصلے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔
مقدمے کی سماعت کے دوران سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور ناروے کے سفارتکاروں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ انسین جیل میں بند دروازوں کے پیچھے جاری اس عدالتی کارروائی میں حصہ لے سکیں۔
مقدمے کا فیصلہ سوچی کے خلاف ہونے کی صورت میں انہیں پانچ سال تک کی سزائے قید ہوسکتی ہے۔ میانمار میں جمہوریت کی علمبردار سمجھی جانے والی اِس خاتون سیاستدان کی زندگی کے پچھلے 19میں سے 13 برس قید یا نظر بندی میں گذرے ہیں۔
ابھی حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے سوچی کی گرفتاری کی وجہ سے مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان سے میانمار کی رکنیت ختم کرنے کی تجویز دی تھی۔ اگرچہ میانمار کی رکنیت تو ختم نہ ہو سکی مگر سوچی کی رہائی کے لئے آسیان اور بین الاقوامی دباؤ بہرحال موجود ہے۔ اس سے قبل اسی ماہ اقوام متحدہ کے سیکریٹیری جنرل بان کی مون نے میانمار کا دورہ بھی کیا تھا اور سوچی رہائی کی اپیل کے علاوہ ان سے ملاقات کے لئے حکومت سے درخواست بھی کی تھی، جو کہ مسترد کر دی گئی تھی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق میانمار کی فوجی حکومت کی جانب سے سوچی کی رہائی سے متعلق بین الاقوامی مطالبوں میں کوئی دلچسپی نہیں دیکھی جا رہی۔ کہا جا رہا ہے کہ سوچی کی قید میں حکومت کی دلچسپی کا مقصد دراصل انہیں اگلے سال کے عام انتخابات سے دور رکھنا ہے۔
رپورٹِ: میرا جمال
ادارت: امجد علی