جنوبی سوڈان اقوام متحدہ کا 193واں رکن ملک
15 جولائی 2011گزشتہ ہفتے دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے نئے ملک جنوبی سوڈان کی اقوام متحدہ کی رکنیت پر عالمی برداری نے اسے مبارکباد کے پیغامات ارسال کیے ہیں۔ رواں برس جنوری میں ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے سوڈان کے عوام نے جنوبی سوڈان کو ایک آزاد ملک بنانے کے حق میں ووٹ دیا تھا، جس کے بعد نو جولائی کو اسے پر امن طریقے سے باقاعدہ آزادی دی گئی۔
گزشتہ روز امریکی شہر نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا،’خوش آمدید جنوبی سوڈان۔ اقوام کی کمیونٹی میں خوش آمدید‘۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر Joseph Deiss نے جنوبی سوڈان کے عالمی ادارے کے نئے رکن بننے کو ایک تاریخی اور پر مسرت لمحہ قرار دیا۔ اس سے قبل 2006ء میں مونٹی نیگرو اقوام متحدہ کا 192واں رکن ملک تسلیم کیا گیا تھا۔ بدھ کے دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوبی سوڈان کے اقوام متحدہ کا رکن ملک بننے کی متفقہ طور پر حمایت کی تھی۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر جنوبی سوڈان کا پرچم لہرایا گیا۔ جنوبی سوڈان دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ سوڈان کی خانہ جنگی کے دوران یہاں بنیادی اقتصادی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا تھا۔ تاہم جبہ اور خرطوم حکومتوں نے اب عہد کیا ہے کہ ماضی کے تمام تنازعات کے پر امن حل کے لیے دونوں ممالک اپنی بھرپور کوششیں کریں گے تاکہ وہاں ترقی کے راستے کھل سکیں۔ جنوبی اور شمالی سوڈان کو ابھی تک کئی اہم تنازعات پر سمجھوتہ کرنا ہے۔ ان میں سرحدی تنازعات کے علاوہ قدرتی وسائل کی تقسیم کے معاملات سرفہرست ہیں۔
کئی سکیورٹی تجزیہ نگاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان دونوں ممالک کے مابین اہم مسائل کے حل کے لیے عالمی سطح پر کوششیں نہ کی گئیں تو اس خطے میں قیام امن کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جرمنی سمیت کئی مغربی ممالک نے جنوبی سوڈان کی ہر ممکن مدد کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے ان دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی