1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی کی جیلوں میں قیدیوں کی غربت

16 اکتوبر 2022

کہتے ہیں کہ قرض کے بوجھ کے ساتھ جیل جانے والا وہاں سے مزید مقروض ہو کر ہی باہر نکلتا ہے۔ موجودہ مہنگائی کی وجہ سے پیدا شدہ بحران اس صورت حال کو ابتر بنانے کا باعث بن رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4I8fB
Deutschland Justiz l Gefängnis, Inhaftierte Person l Symbolbild
تصویر: Thomas Imo/photothek/picture alliance

حالیہ دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا بحران اس کہاوت کو سچ ثابت کرتا دکھائی دے رہا ہے جس کے مطابق جیل جانے والا کوئی بھی مقروض شہری وہاں سے مزید مقروض ہو کر ہی نکلتا ہے۔ چونکہ کھانے ہینے کی اشیاء کی قیمتیں بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں، اس لیے جرمنی میں جیلوں کے قیدیوں کی مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔

جرمنی میں لگ بھگ 45 ہزار افراد جیلوں میں قید ہیں۔ دیگر جرمن باشندوں کے مقابلے میں وہ مہنگائی سے کہیں زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور ان کی کوئی لابی بھی نہیں ہے۔ یہ قیدی روزمرہ کی ضروری اشیاء، خاص طور سے اشیائے خوراک جیسے کہ روٹی، مکھن، سورج مکھی کے تیل اور دیگر مصنوعات کے لیے کسی سپر مارکیٹ کی خصوصی پیشکش سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ ان قیدیوں کی جرمنی بھر میں پائے جانے والے ایک ہزار کے قریب فوڈ بینکوں تک رسائی بھی نہیں ہوتی جو غربت کے شکار اور بے سہارا انسانوں کو مفت کھانا فراہم کرتے ہیں۔ انہیں ہر ہفتے صرف ایک بار اپنے استعمال کے لیے ضروری ان اشیاء کی فہرست پر نشان لگانے کا موقع ملتا ہے، جو مفت فراہم کی جانے والی بنیادی اشیاء کے علاوہ وہ اضافی طور پر خریدنا چاہتے ہوں۔ ایسی اشیاء کی قیمتیں بعض اوقات باہر کی دکانوں کی قیمتوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جرمنی کی 160 جیلوں کو یہ تمام اشیاء صرف ایک ہی کمپنی فراہم کرتی ہے۔ اس طرح اس ایک کمپنی کی اس کاروبار پر اجارہ داری ہے۔ مثلاً کسی بھی سستے سٹور سے 19 سینٹ کی قیمت پر ملنے والی منرل واٹر کی ایک بوتل کی قیمت جیل کے اندر 34 سینٹ تک  ہو سکتی ہے، یعنی تقریباﹰ 80 فیصد زیادہ۔

جر منی: امیر ملک میں غربت کیسی ہوتی ہے؟

سیاست میں قیدیوں کا موضوع غیر اہم

جرمنی جیسے ملک میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے، جو قیدیوں کے حقوق اور مفادات کے لیے سرگرم ہوں۔ وفاقی صوبے سیکسنی کی پارلیمان میں بائیں بازو کی ایک رکن ژولیانے ناگل تاہم قیدیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔ ژولیانے کہتی ہیں، ''کام یا مشقت کرنے والے قیدیوں کو جو بہت کم معاوضے دیے جاتے ہیں، ان میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ سیکسنی کی جیلوں میں ساڑھے تین ہزار قیدیوں میں سے دو ہزار ملازم ہیں، انہیں زیادہ سے زیادہ دو یورو پندرہ سینٹ فی گھنٹہ اجرت ملتی ہیں اور اس اجرت کو قانونی پینشن کے لیے شمار بھی نہیں کیا جاتا۔‘‘

Deutschland Justiz l Gefängnis, Inhaftierte Person l Symbolbild
جرمنی کے جیلوں میں قیدیوں کی صورتحال کافی خستہ ہےتصویر: Swen Prörtner/dpa/picture alliance

بائیں بازو کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے جرمن سیاست دان جرمنی کی جیلوں میں اصل صورت حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زیادہ تر قیدی کام کرتے ہیں۔ 16 جرمن ریاستوں میں سے 12 ریاستوں کی جیلوں میں قیدیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ کام کریں۔ قیدی کچن میں کرتے ہیں، کسی بڑھئی کا کام یا پھر لوہار کا کام۔ انہیں ایسے کاموں کی اجرت دو تا تین یورو فی گھنٹہ ملتی ہے۔

جرمنی کے امیر اور غریب شہریوں میں آمدن کی تفریق بڑھتی ہوئی

مہنگائی کے دور میں آمدنی کم

قیدیوں سے بہت کم اجرت پر کام لینے کا مقصد دراصل ان کی تربیت کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ مسلسل کام کرنے کے عادی بن جائیں اور انہیں باقاعدہ کام کرنے کی قدر و اہمیت کا علم بھی ہو۔ انہیں آزادی کی زندگی گزارنے کی تیاری کے لیے دوبارہ سماجی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ آزاد معاشرے میں زندگی گزارنے کے قابل بن سکیں۔ جرمنی میں جیلوں میں کام کرنے والے قیدیوں کو قانونی طور پر ملازم نہیں سمجھا جاتا۔ دوسری طرف قیدی یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ان کے لیے ایمان داری سے کام کرنا اس وجہ سے بیکار ہو سکتا ہے کہ انہیں اس سے کوئی زیادہ مالی فائدہ تو نہیں پہنچے گا۔

یہ قیدی کچھ رقم سے اپنے لیے حفظان صحت کا ضروری سامان خریدوا لیتے ہیں، مثلاﹰ شیمپو، باڈی سپرے یا شیو کے لیے ریزر وغیرہ۔ اس کے علاوہ وہ کچھ رقم باہر کی دنیا سے رابطے کے لیے ٹیلی فون کالوں پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ کچھ قیدی اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ وہ شاپنگ کے دوران اپنے لیے خود پیسے دے کر پھل، مٹھائیاں یا منرل واٹر وغیرہ منگوا لیں۔

Armutsbekämpfung in der katholischen Gemeinde St. Theodor in Köln Vingst
کیتھولک چرچ غریب لوگوں کی امداد کا کام انجام دیتا ہےتصویر: Peter Hille/DW

پینشن کے استحقاق میں اضافہ

جرمنی کی موجودہ وفاقی حکومت پینشن کے استحقاق کو بڑھا دینا چاہتی ہے۔ آج کے دور میں قیدیوں پر یہ مقولہ صادق آنے لگا ہے: ''قیدی قرضوں کے ساتھ جیل جاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ مقروض ہو کر باہر نکلتے ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ جیل میں محنت سے ہونے والی آمدنی کو بڑھاپے میں پینشن کے استحقاق کے لیے بھی شمار نہیں کیا جاتا۔ نتیجہ یہ کہ بڑھاپے میں رہائی پانے والے قیدیوں کے لیے باہر کی دنیا میں غربت بھی ایک بڑا چینیلج ہوتی ہے۔ جیل سے رہائی کے ابتدائی تین برسوں کے دوران تقریباً ہر دوسرا قیدی دوبارہ کسی نہ کسی جرم کا مرتکب ہو جاتا ہے۔

ک م / م م (اولیور پِیپر)