1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک پولیس کی استنبول میں نئی کارروائی

حرا مرید11 جون 2013

منگل کے روز ترک پولیس آنسو گیس اور پانی کا استعمال کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرین کو منتشرکرنے کے لئے استنبول کے سکوائر میں دوبارہ داخل ہوئی۔

https://p.dw.com/p/18nab
تصویر: Aris Messinis/AFP/Getty Images

سینکڑوں پولیس اہلکار جن کے ساتھ بکتر بند گاڑیاں بھی تھیں، صبح کے وقت ’تقسیم سکوائر‘ میں داخل ہوئے اس موقع پر ان کا کہنا تھا،’’ ہم مظاہرین کی مورچہ بندیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور علاقے کو جھنڈوں اور بینرز سے صاف کر نا چاہتے ہیں‘‘۔

پولیس کی اس فوری کارروائی نےگیزی پارک میں جمع سینکڑوں مظاہرین مظاہرین کو حیران کر دیا۔اس سے قبل ملکی نائب وزیر اعظمBulent Arinc نے کہ چکے تھے کہ ایردوآن بدھ کے روز احتجاجی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ گزشتہ دو ہفتے سے شروع اس بدامنی کے بعد یہ ان کی ملاقات کے حوالے سے پہلی رضامندی تھی۔

نائب وزیر اعظم نے مسائل کے حل کے اشارے کے باوجود اس بات سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ترکی میں اب غیر قانونی مظاہروں کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس کا استعمال کیا جس سے پورے اسکوائر میں دھواں بھر گیا۔ اور مظاہرین پر زور دیا کہ وہ پرسکون طریقے سے گیزی پارک کی طرف لوٹ جائیں۔

ملک میں زیادہ بدامنی اس وقت شروع ہوئی جب پولیس نے 31 مئی کو گیزی پارک میں موجود مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا تھا۔

Türkei Proteste gegen die Regierung in Istanbul Räumung Taksim Platz 11.06.2013
تصویر: picture-alliance/dpa

استنبول شہر کے مرکز میں موجود ان مظاہرین کی تعداد تقریباﹰ پانچ ہزار کے قریب ہے۔ ان میں درمیانے طبقے کے افراد اور نوجوان شامل ہیں۔ ڈاکٹروں کی یونین کے مطابق اب تک دو مظاہرین اور ایک پولیس اہلکار ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

ٹوئٹر پر ترکی کے گورنر حسين عونی موتلو نے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ اس مقام سے صرف بینرز اور جھنڈے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کارروائی کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔اپنے پیغام میں ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ گیزی پارک اور تقسیم سکوائر کو بالکل نہیں چھویئں گے لیکن وہ مظاہرین سے اپیل کرتے ہیں کہ مصیبت اور تکلیف کا باعث بننے والے لوگوں سے دور رہیں۔

Türkei Proteste gegen die Regierung in Istanbul Räumung Taksim Platz 11.06.2013
تصویر: Reuters

24 سالہ براک ارت نےبتایا کہ وہ گیزی پارک میں سو رہا تھا جب پولیس سکوائر میں داخل ہوئی اور پورا علاقہ آنسو گیس سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ آزادی کے لیے لڑنے والے ہیں اور وہ سب آزادی چاہتے ہیں۔

ترکی میں 2015ء میں عام انتخابات طے ہیں اور حکام نے کسی بھی صورت میں جلد انتخابات کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔

وزیرا عظم ایردوآن کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں میں اب تک چھ سو پولیس اہلکار زخمی ہو چکے ہیں۔ ترک رہنما کو اس بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی کی وجہ سے بین الاقوامی مذمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ترکی 76 ملین کی آبادی پر مشتمل ایک ملک ہے اور اس خطے میں امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کا اتحادی بھی ہے۔

hm/zb(AFP)