1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: ایردوآن مظاہرین کے نمائندوں سے ملاقات پر راضی

11 جون 2013

ترکی میں حکومت مخالف مظاہروں کو ختم کرنے کے لیے پیر کے روز وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے مظاہرین کے لیڈروں سے ملاقات کرنے پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔ مظاہروں سے ترکی کا امن و امان درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/18nMR
تصویر: picture-alliance/dpa

وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی جانب سے مظاہرین کے لیڈران کو امن کے نشان کے طور پر زیتون کی شاخ کی پیشکش کے عمل سے حکومت مخالفین اور مظاہرین دونوں کو حیرت ہوئی ہے۔ استنبول اور دارالحکومت انقرہ کی سڑکوں پر حکومت مخالف مظاہروں کے شرکاء کو ایردوآن نے اتوار کے روز دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ مظاہرہ کرنے والوں کو ان حکومت مخالف اقدامات کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک دہائی سے قائم ایردوآن حکومت کو ان دنوں سب سے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ ایردوآن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکی میں غیر قانونی مظاہروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

Türkei Premierminister Recep Tayyip Erdogan
جدید ترکی کی تاریخ میں کمال اتاترک کے بعد رجب طیب ایردوآن کو انتہائی مقبول لیڈر خیال کیا جاتا ہےتصویر: imago/Xinhua

ترکی کے نائب وزیر اعظم بلند آرِنچ (Bulent Arinc) نے مظاہرین کے نمائندہ لیڈروں سے وزیر اعظم کی ممکنہ ملاقات کے حوالے میڈیا کو بریف کیا۔ امکاناً یہ ملاقات کل بدھ کے روز ہو سکتی ہے۔ نائب وزیر اعظم کے مطابق ان لیڈروں کو حقائق سے آگاہ کیا جائے گا اور ترک وزیر اعظم گفتگو کر کے ان لیڈروں کے خیالات کو جان سکیں گے۔ ایردوآن نے مظاہرین کے نمائندوں سے ملاقات کرنے کا فیصلہ پیر کے روز ہونے والی کابینہ کی طویل میٹنگ کے دوران کیا۔ تاریخی شہر استنبول سے مظاہروں کا آغاز 31 مئی کو ہوا تھا۔

ترکی میں جاری مظاہروں کے دوران پولیس کارروائیوں اور مظاہرین کے پتھراؤ کے دوران کم از کم دو مظاہرین اور ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت کی تصدیق طبی ذرائع نے کر دی ہے۔ ترک وزیر اعظم کے مطابق اتوار تک مظاہروں کے دوران 600 پولیس اہلکار زخمی ہو چکے تھے۔ ہنگامی طبی امداد فراہم کرنے والوں کے مطابق زخمیوں کی تعداد 5 ہزار کے قریب ہے۔ مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائیوں کی عالمی سطح پر مذمت بھی کی جا چکی ہے۔

Unterstützer der türkische Ministerpräsident Tayyip Erdogan
حکومت مخالف مظاہروں کے جواب میں ایردوآن نے اپنی پارٹی کے حامیوں کو تلقین کی تھی کہ وہ بھی باہر نکل ریلیاں نکالیں۔تصویر: reuters

استنبول کے گیزی پارک کے پہلو میں واقع تقسیم اسکوائر میں اتوار سے پیر کی رات گئے تک ہزار ہا مظاہرین موجود رہے۔ بعض مظاہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایردوآن حکومت بیشتر معاملات کو مذہبی رنگ دینے کی کوششوں میں ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معاملات کو جمہوری رنگ دیا جائے۔ حکومت مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایردوآن جابرانہ رویوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور صحافیوں، اقلیتی کرد آبادی اور فوج کو ان کے درشت تنقیدی لہجے کا سامنا رہتا ہے۔ دوسری جانب جدید ترکی کی تاریخ میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے بعد رجب طیب ایردوآن کو انتہائی مقبول لیڈر خیال کیا جاتا ہے۔ ان کی سیاسی جماعت اب تک تین مرتبہ انتخابات میں سرخرو رہ چکی ہے۔ ایردوآن نے اپنے ملک کی اقتصادیات کو انتہائی مضبوط خطوط پر استوار کیا ہے۔

ترکی میں حکومت مخالف مظاہروں کے جواب میں وزیر اعظم ایردوآن نے اپنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کے حامیوں کو تلقین کی تھی کہ وہ بھی باہر نکل کر مخالفین کے جواب میں ریلیاں نکالیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان مظاہروں کے اگلے برس کے بلدیاتی انتخابات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ایردوآن نے اپنے حامیوں کو باہر نکلنے کی تلقین بھی اسی تناظر میں کی ہے۔ اگلے سال یعنی سن 2014 کے دوران ترکی میں صدارتی انتخابات کا بھی انعقاد ہو گا جبکہ عام پارلیمانی الیکشن سن 2015 میں ہوں گے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ایردوآن دستور میں ترمیم کر کے اب منصب صدارت پر نگاہیں جمائے ہوئے ہیں۔

(ah/mm(AFP