بھارت کی عسکری صلاحیتوں پر انحصار کا اچھوتا امریکی فیصلہ
31 مئی 2018امریکی وزارت دفاع کے ایک اعلان کے مطابق واشنگٹن نے امریکی پیسیفک کمانڈ کا نام تبدیل کر دیا ہے۔ اس اعلامیے میں بتایا گیا کہ نیا نام ’یُو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ‘ رکھا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ ایک علامتی تبدیلی ہے اور اس کا مقصد بھارت اور امریکا کے درمیان عسکری تعاون میں وسعت پیدا کرنا ہے۔
بحر الکاہل کے انتہائی وسیع تر علاقے کے سلامتی امور پر نگاہ رکھنا امریکی پیسیفک کمانڈ کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کمانڈ میں شامل فوجی اور سویلین ملازمین کی تعداد تین لاکھ پچھتر ہزار کے لگ بھگ ہے۔ امریکی پیسیفک کمانڈ کے دائرہٴ اثر میں بھارت بھی شامل ہے۔
یو ایس پیسیفک کمانڈ کو یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ کا نام دینے کی تقریب میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا کہ بحر الکاہل اور بحر ہند کے اتحادیوں کی امریکا کے ساتھ شراکت نے یہ ثابت کیا ہے کہ علاقائی استحکام کے لیے شراکتی سلسلے کو وسیع تر کرنا اشد ضروری ہے۔ میٹس نے مزید کہا کہ بحرالکاہل اور بحر ہند کے درمیان سکیورٹی رابطے استوار کرنے کے لیے امریکا نے بحرالکاہل کمانڈ کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ پیسیفک کمانڈ کے نام کی تبدیلی سے اُس کے پہلے سے طے شدہ اثاثوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائے گی۔ اس تبدیلی کا واضح مقصد اور مرکزی نکتہ امریکا کا بھارت کی عسکری قوت پر ایک طرح سے انحصار خیال کیا گیا ہے۔ بھارت اس وقت امریکا کا دوسرا سب سے بڑا اسلحے کا خریدار ہے اور اس کا حجم پندرہ بلین ارب تک پہنچ چکا ہے۔
امریکی وزیر دفاع نے ان خیالات کا اظہار پیسیفک کمانڈ کے نئے کمانڈر ایڈمرل فلپ ڈیوڈسن کی جانب سے ذمہ داریاں سنبھالنے کے موقع پر کیا۔ ایڈمرل ڈیوڈسن ریٹائر ہونے والے ایڈمرل ہیری ہیرس کی جگہ تعینات کیے گئے ہیں۔ امریکی نیوی کے ریٹائر ہونے والے اعلیٰ افسر ہیری ہیرس کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی کوریا میں نیا امریکی سفیر نامزد کیا ہے۔
امریکی پیسیفک کمانڈ ہوائی کے جزیرے پرل ہاربر میں قائم ہے۔ اس کمانڈ کا ایک اور مرکز ریاست کیلیفورنیا کی سان ڈیگو کی بندرگاہ بھی ہے۔