بھارت : عام انتخابات اور خارجہ پالیسی
14 اپریل 2009لیکن ان عام انتخابات کے دوران کسی بھی سیاسی پارٹی نے اتنے اہم معاملات کو اپنا انتخابی موضوع بنانے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔حالانکہ صرف چندماہ پہلے بھارت امریکہ نیوکلیائی معاہدے پر ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت گرنے کی دہلیز تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن اس عام انتخابات میں اتنے اہم معاملے کا کسی بھی سیاسی جماعت کے انتخابی جلسوں میں کوئی ذکر سنائی نہیں دے رہا ہے۔پاکستان کی بات دوسری ہے کیوں کہ بعض سیاسی جماعتیں اسے بھی ایک جذباتی موضوع سمجھ کر اٹھاتی ہیں۔
لیکن ایک حالیہ سروے کے مطابق نومبر میں ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کا ذکر بھی صرف ممبئی، دہلی اور چند مقامات کے انتخابی جلسوں میں ہی سنائی دیا۔ دراصل بھارت میں خارجہ پالیسی کبھی بھی انتخابی موضوع نہیں بن سکا۔
فوج کے سابق نائب سربراہ اور خارجہ پالیسی کے ماہرجنرل رمیش تھاپر نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو خارجہ پالیسی سے دلچسپی اس لئے نہیں ہے کیوں کہ اسے اپنے روزمرہ کے مسائل سے ہی فرصت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں خارجہ پالیسی کے تئیں زیادہ بیداری لانے کی ضرورت ہے لیکن اس سے پہلے خود سیاسی لیڈروں کو ملک کی خارجہ پالیسی سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ فارن پالیسی کے ماہراور ملٹری آپریشنز کے سابق ڈائریکٹر جنرل وی آر راگھون بھی جنرل رمیش تھاپر کے خیالات سے متفق ہیں تاہم انہیں امید ہے کہ اس مرتبہ ووٹر اسی سیاسی پارٹی کو مرکز میں حکومت بنانے کے لئے ووٹ دیں گے جو بھارت امریکہ نیوکلیائی معاہدے جیسی اہم پالیسیوں کو آگے لے جانے کے حق میں ہے۔
حالانکہ تقریبا تمام سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں خارجہ پالیسی کا سرسری ذکر ضرور کرتی ہیں لیکن کوئی بھی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتا ہے۔ جنرل رمیش تھاپر کا خیال ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں میں بہر حال اس بات پر اتفاق ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات خوشگوار اور پرامن ہوں تاکہ ملک کی ترقی کی راہ میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ لیکن بھارتی وزارت خارجہ میں سابق سکریٹری راجیو سکری کا کہنا ہے کہ الیکشن کے بعد انتخابی منشور کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے اور جو پارٹی بھی اقتدار میں آتی ہے وہ بالعموم حالات اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتی ہے۔
جنرل رمیش تھاپر کا کہنا ہے کہ حالانکہ بعض وجوہات کی بنا پر سیاسی پارٹیوں نے اب تک خارجہ پالیسی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی لیکن اپنی خارجہ پالیسی کو پڑوسیوں کے ساتھ دوستی کے فروغ کے لئے استعمال کرنا چاہئے تاکہ جنگ کی نوبت نہ آئے۔