بھارت: خواتین کے خلاف جرائم میں تشویشناک حد تک اضافہ
6 ستمبر 2016ان میں سب سے زیادہ تعداد شوہروں اور رشتہ داروں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی ہے۔ بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں عصمت دری کے چونتیس ہزار چھ سو اکیاون معاملات درج کیے گئے ۔
عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین میں چھ سا ل کی بچی سے لے کر ساٹھ سال تک کی بزرگ خواتین شامل تھیں تاہم عصمت دری کا شکار ہونے والی زیادہ تر خواتین یعنی تقریباً سترہ ہزار کی عمریں اٹھارہ سے لے کر تیس برس تک تھیں۔ رپورٹ کے مطابق متاثرہ خواتین میں سے تینتس ہزار سے زیادہ یا تقریباً 95.5 فیصد کی عصمت دری میں مبینہ طور پر ان کے رشتہ دار، عزیز یا جان پہچان والے ملوث تھے۔
خواتین او ربچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت میں عورتوں کے ساتھ جرائم کا مسئلہ جتنا سنگین ہے، اس کے پیشِ نظر یہ سرکاری اعداد و شمار اصل تعداد سے کافی کم ہیں۔ آل انڈیا پروگریسیو ویمن ایسوسی ایشن کی سیکرٹری کویتا کرشنن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ تعداد درست نہیں ہے کیوں کہ بیشتر خواتین بدنامی کے خوف سے عصمت دری کے معاملات کو درج کرانے سے گریز کرتی ہیں۔ کویتا کرشنن کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کی جڑ بھارت کا سماجی ڈھانچہ ہے، جس میں عورتوں کو بہت محدود خودمختاری حاصل ہے اور اسے روایات اور ثقافت کے نام پر درست ٹھہرانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیوروکی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر تین لاکھ ستائیس ہزار تین سو چورانوے معاملات درج کرائے گئے۔ اس میں عصمت دری کی کوشش کے چار ہزار چارسو سینتیس معاملات شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم کی شرح کے لحاظ سے قومی دارالحکومت نئی دہلی سر فہرست رہا، جہاں فی لاکھ خواتین پر جرائم کے 184.3 واقعات پیش آئے جب کہ آسام دوسرے نمبر پر رہا، جہاں یہ تعداد فی ایک لاکھ خواتین 148.2 فیصد تھی۔
بیورو کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں بردہ فروشی کے واقعات میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ 2015ء میں بردہ فروشی کے 6877 معاملات درج کرائے گئے۔ ان میں 3490 یعنی اکیاون فیصد بچے تھے۔ رپورٹ کے مطابق 2015ء میں بچوں کے خلاف جرائم کے 94172 معاملات درج کرائے گئے۔ ان میں 76345معاملات عصمت دری یا اغوا سے متعلق تھے۔
خیال رہے کہ دسمبر 2012ء میں قومی دارالحکومت میں ایک بس میں ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے واقعے کے بعد ملک بھر میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے اور پوری دنیا میں اس واقعے کی مذمت کی گئی تھی۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے تقریباً چار سال بعد بھی خواتین کی سلامتی اور تحفظ کے حوالے سے صورت حال میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی ہے۔