بولان کے پہاڑوں میں جرمن سیاحوں کی گمشدگی اور بازیابی
5 اپریل 2018قبائلی پولیس اہلکار محب اللہ آغا نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈی اے کو بتایا کہ ممکنہ طور پر لاپتہ ہونے والوں میں پانچ جرمن مرد اور ایک جرمن خاتون شامل تھیں۔ یہ لوگ کوئٹہ سے صوبہ پنجاب کی طرف سفر کر رہے تھے جب ان سیاحوں کا رابطہ اپنی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں سے منقطع ہو گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق یہ افراد کوئٹہ کے قریب بولان کے پہاڑوں میں گھوم پھر رہے تھے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ اور دوسرے عسکریت پسند گروپوں کے جنگجوؤں کی طرف سے اکثر اوقات مسافروں کے اغوا اور قتل کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔
محب اللہ آغا نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ لاپتہ سیاحوں کو ڈھونڈنے کے لیے پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں نے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کیا۔
آغا نے مزید بتایا، ’’یہ سیاح لاپتہ ہونے کے چھ گھنٹے بعد پہاڑوں میں گھومتے ہوئے ملے۔ ان جرمن سیاحوں کی تلاش میں ایک سو سے زائد اہلکاروں نے حصہ لیا۔‘‘
آغا کے مطابق یہ ’مہم جو‘ سیاح جانتے بوجھتے اپنی حفاظت پر مامور دستے سے الگ ہوئے تاہم مقامی ٹی وی جیو کے مطابق یہ جرمن شہری لاپتہ ہو گئے ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی ان سیاحوں کی تعداد چھ ہی بتائی ہے۔
پاکستانی صوبہ بلوچستان جس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں، رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا لیکن مگر شورش کا شکار صوبہ ہے۔ اس صوبے کو کثیر الجہتی خطرات کا سامنا رہتا ہے جن میں طالبان کی موجودگی کے علاوہ سنی عسکریت پسندوں کے شیعہ اقلیت پر حملے اور قوم پرست بلوچوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں شامل ہیں۔
گزشتہ برس جہادی گروہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے کوئٹہ سے ایک چینی جوڑے کو اغوا کیا تھا جسے بعد میں قتل کر دیا گیا تھا۔