برطانوی کابینہ میں رد و بدل
6 جون 2009برطانوی وزیرِاعظم گورڈن براؤن کا کہنا ہے کہ متعدد وزراء کے مستعفی ہونے کے باوجود وہ اپنا عہدہ نہیں چھوڑیں گے اور سیاسی بحران کا مقابلہ کریں گے۔ ان کے مطابق یہ صورتحال ان کے لیے ایک امتحان ہے اور وہ ملک کو معاشی اور سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے ہر ممکن کارروائی کریں گے۔
واضح رہے کہ براؤن کابینہ کے دو مزید وزراء جیف ہون اور جان ہٹن اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ اس طرح مسعقی ہونے والے وزراء کی تعداد چار ہو گئی ہے۔ برطانوی وزیرِاعظم پر اقتدار چھوڑنے اور قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
مزید برآں جمعرات کو ہوئے انگلش کاؤنٹی کونسل کے انتخابات میں حکمران لیبر پارٹی کو ملک بھرمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حزبِ مخالف کنزرویٹر جماعت نے ملک بھر میں کامیابی حاصل کی ہے۔
گورڈن براؤن نے اس ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں شکست تکلیف دہ تھی اور بہت سے اچھے لوگ جو اپنے حلقوں میں بہت اچھا کام کر رہے تھے وہ ہار گئے ہیں جس کے وہ خود ذمہ دار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں ان کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور ان سب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جو انتخابات میں جیتے ہیں‘
اس ناکامی کے بعد لیبر پارٹی کے اندر سے بھی وزیرِاعظم براؤن کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ بعض تجزیوں کے مطابق قومی سطح پر لیبر پارٹی کے ووٹوں کی شرح گھٹ کر تئیس فیصد رہ گئی ہے جو کہ لبرل ڈیموکریٹس کے اٹھائیس فیصد سے بھی کم ہے۔ کنزرویٹو جماعت کے ووٹوں کی کل شرح اڑتیس فیصد کے قریب ہے۔
اس کے باوجود گورڈن براؤن مصر ہیں کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ سمجھتے کہ وہ بحران پر قابو پانے کے اہل نہیں ہیں تو وہ خود ہی عہدہ چھوڑ دیتے۔ ان کی رائے میں کابینہ میں انہوں نے تجربہ کار اور با کردار لوگوں کا انتخاب کیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق کابینہ میں رد و بدل کے زریعے گورڈن براؤن نے بحران پر قابو پانے کی ایک کوشش کی ہے تاہم بچاؤ کی یہ ایک آخری کوشش ہے جس کے زریعے براؤن بہت زیادہ مضبوط وزیرِاعظم کے طور پر سامنے نہیں آئے ہیں۔