اوپيک کا اہم اجلاس، خام تيل کی يوميہ پيداوار ميں کمی زير غور
27 نومبر 2014گزشتہ روز امريکا ميں تيل کے بينچ مارک ’ويسٹ ٹيکساس انٹرميڈيٹ‘ کے آئندہ برس جنوری کے لیے طے پانے والے نرخوں ميں چاليس سينٹس کی کمی آئی اور تیل کی قیمتیں 73.69 فی بيرل تک کم ہوئیں۔ فی بيرل قيمتوں کی يہ ستمبر 2010ء سے اب تک کی سب سے نچلی سطح ہے۔
رواں سال جون سے اب تک بين الاقوامی منڈيوں ميں خام تيل کی قيمتوں ميں قريب تيس فيصد کمی، کرنسی مارکيٹ ميں امريکی ڈالر کی اچھی کارکردگی اور توانائی کی طلب سے منسلک مسائل کے تناظر ميں آج ہونے والے اجلاس کو پچھلے کئی سالوں کا اہم ترين اجلاس قرار ديا جا رہا ہے۔
وينزويلا اور ايکواڈور جيسے مقابلتاﹰ غريب ممالک کی طرف سے اوپيک پر کافی دباؤ ہے کہ وہ اپنی پيداوار ميں کمی کرے کيونکہ ان ممالک کی تيل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی ميں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اس کارٹيل کی رکن خليجی رياستوں نے ايسے مطالبات مسترد کر ديے ہيں۔ ان ممالک کا موقف يہ ہے کہ پيداوار ميں کمی اسی صورت ممکن ہے کہ جب انہيں انتہائی مسابقتی عالمی منڈيوں ميں شراکت کی ’گارنٹی‘ دی جائے۔
يہ امر اہم ہے کہ بارہ رکنی اوپيک دنيا بھر ميں خام تيل کی مجموعی پيداوار کے ايک تہائی حصے کا شراکت دار ہے۔
اوپيک کے مرکزی ملک سعودی عرب کی طرف سے بدھ کے روز کہا گيا ہے کہ خام تيل کی ترسيل کے حوالے سے خليجی ممالک کے درميان اتفاق رائے قائم ہو گيا ہے اور رياض حکام اميد کرتے ہيں کہ ديگر ارکان بھی اس پر اتفاق کر ليں گے۔ خام تيل کی سعودی وزارت کے سربراہ علی النعيمی نے رپورٹروں کو بتايا، ’’ميں پر اعتماد ہوں کہ اوپيک ايک مشترکہ پوزيشن اختيار کرنے کی اہل ہے۔‘‘
دنيا کے متعدد ممالک کو توانائی سے متعلق پاليسیوں پر مشاورت فراہم کرنے والی انٹرنيشنل انرجی ايجنسی کے مطابق پچھلے ماہ اوپيک کی طرف سے يوميہ 30.6 ملين بيرل تیل نکالا گیا جبکہ اس تنظيم کا يوميہ ہدف 30 ملين بيرل کا ہے۔ چند ماہرين کا ماننا ہے کہ آج ہونے والے اجلاس ميں يہ فيصلہ کيا جا سکتا ہے کہ تنظيم اس اضافی خام تيل ميں کمی لائے نہ کہ اپنی مقررہ يوميہ حد ميں کوئی کمی کرے۔
دوسری جانب اوپيک کا اصرار ہے کہ عام صارفين کے ليے قيمتوں ميں کمی ليکن تيل کی تجارت سے منسلک کمپنيوں کے منافعوں ميں کمی کا سبب بننے والی اضافی سپلائی کو محدود کرنا مکمل طور پر صرف اوپيک ہی کے ہاتھوں ميں نہيں ہے۔