’امریکی شہری کا قتل‘، شمالی کوریا نصف بلین ڈالر ادا کرے
25 دسمبر 2018اوہائیو سے تعلق رکھنے والے اوٹو وارمبیئر نامی امریکی طالب علم شمالی کوریا میں سترہ ماہ کی قید کے دوران متعدد دماغی انجریز کا شکار ہوا تھا اور واپس وطن پہنچنے پر وفات پا گیا تھا۔ مارچ سن دو ہزار پندرہ میں پیونگ یانگ میں ایک پراپیگینڈ پوسٹر چرانے کے جرم میں اسے پندرہ برس کی سزائے قید سنائی گئی تھی تاہم سترہ ماہ بعد جون سن دو ہزار سترہ میں اسے کومے کی حالت میں واپس امریکا منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات تھے جبکہ وہ متعدد دماغی انجریز کا شکار بھی ہوا تھا۔
یونیورسٹی آف ورجینیا کا یہ طالب علم اسٹوڈنٹس کے ایک مطالعاتی دورے کے ساتھ شمالی کوریا گیا تھا۔ امریکی طبی حکام کے مطابق وطن واپس پہنچنے پر اس نوجوان کے پیروں پر نشانات تھے جو یہ ظاہر کر رہے تھے کہ اسے بجلی کے جھٹکوں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس طالب علم کی موت کی وجہ دماغ میں خون اور آکسیجن کی کمی قرار دی گئی تھی۔
اوٹو وارمبیئر کے والدین نے اپنے بیٹے کی ہلاکت کا ذمہ دار شمالی کوریا کو قرار دیتے ہوئے مقدمہ کر دیا تھا۔ ان کی جانب سے شمالی کوریا پر اغوا، تشدد اور قتل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ اس مقدمے کی طویل کارروائی کے بعد پیر کے روز واشنگٹن کے چیف ڈسٹرکٹ جج بیرل ہوویل نے ایک فیصلے میں کہا کہ شمالی کوریا کو امریکی شہری اوٹو وارمبئیر کے والدین کو 500 ملین ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔ عدالتی جج ہوویل نے اپنے فیصلے میں لکھا، ’’شمالی کوریا اوٹو وارمبئیر کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ہے اور اس ملک نے وارمبیئر کے والدین کو شدید غم اور دکھ پہنچایا ہے۔‘‘
اس عدالتی فیصلے کے بعد وارمبیئر کے والدین کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہم شکر گزار ہیں کہ امریکا میں ایک آزاد اور منصفانہ عدالتی نظام ہے جس کی بدولت دنیا دیکھ سکتی ہے کہ کم جونگ ان کی حکومت قانونی اور اخلاقی طور پر ہمارے بیٹے کی موت کی ذمہ دار ہے۔‘‘ اس عدالتی فیصلے کو وارمبیئر کے اہل خانہ کی ایک علامتی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے لیکن کسی بھی طور پر شمالی کوریا کو یہ رقم ادا کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔