1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چیٹ جی پی ٹی‘ کے پاکستانی تعلیمی نظام پر کیا اثرات ہوں گے؟

22 جنوری 2023

نومبر 2022ء میں اپنی لانچ سے ہی خبروں کا مرکز رہنے والا چیٹ بوٹ 'چیٹ جی پی ٹی‘ پاکستان میں بھی اب بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے زیادہ تر صارفین کالج اور یونیورسٹی طلباو طالبات ہیں۔

https://p.dw.com/p/4MYJg
چیٹ جی پی ٹی میں 2021ء سے پہلے کا ڈیٹا اپلوڈ کیا گیاتصویر: Jakub Porzycki/NurPhoto/picture alliance

گزشتہ برس نومبر کے اواخر میں مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی کمپنی ''اوپن اے آئی‘‘ نے ایک نیا چیٹ بوٹ لانچ کیا تھا، جو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے صارفین سے گھنٹوں بات کر کے ان کے سوالات کے جوابات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنی لانچ کے پہلے ہفتے میں ہی اسے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے استعمال کیا اور اب تک یہ کئی نئے ریکارڈ بنا چکا ہے۔

دنیا بھر میں اس چیٹ بوٹ کے زیادہ تر صارفین سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات ہیں، جنہیں یہ بوٹ ہوم ورک اور اسائنمنٹ بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس سے پہلے طلباء گھنٹوں گوگل کر کے اپنا متعلقہ مواد تلاش کیا کرتے تھے۔ اس باعث نیویارک سمیت کئی شہروں کے تعلیمی اداروں میں چیٹ جی پی ٹی کو بین کر دیا گیا ہے۔

پاکستان میں بھی یونیورسٹی اور کالجز کے طلباء اس چیٹ بوٹ کو بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔ پہلے سے زبوں حالی کا شکار پاکستانی تعلیمی نظام پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟  ڈوئچے ویلے نے اس حوالے سے طلباء اور اساتذہ سے بات چیت کی ہے۔

Symbolbild OpenAI ChatGTP
اپنی لانچ کے پہلے ہفتے میں ہی اسے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے استعمال کیا اور اب تک یہ کئی نئے ریکارڈ بنا چکا ہے۔تصویر: Jakub Porzycki/NurPhoto/picture alliance

چیٹ جی پی ٹی سے ملنے والی معلومات کتنی مصدقہ ہیں؟

شاہ زیب صدیقی معروف یو ٹیوبر ہیں اور سائنسی موضوعات لکھتے ہیں، جو ایک طویل عرصے سے پاکستان میں سائنس اور فلکیات سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ ایک ماہ سے یہ چیٹ بوٹ استعمال کر رہے ہیں۔ اس دوران جہاں ایک جانب مصنوعی ذہانت نے انہیں کافی متاثر کیا وہیں۔ انہوں نے نوٹ  کیا کہ اس سے ملنے والی معلومات کو حتمی نہیں مانا جا سکتا۔

چیٹ جی پی ٹی میں 2021ء سے پہلے کا ڈیٹا اپلوڈ کیا گیا ہے، یعنی بہت سی جدید معلومات اس میں مکمل طور پر موجود نہیں ہیں۔ شاہ زیب کے مطابق دورانِ چیٹ انہوں نے بوٹ کو کنفیوژ  کرنے کی کوشش کی اور حیران کن طور پر وہ اس میں کامیاب رہے۔ ان سے کچھ دیر بحث کرنے کے بعد بوٹ نے تسلیم کیا کہ پانچ اور پانچ گیارہ کے برابر ہوتے ہیں۔

حالانکہ اس سے کائنات کی وسعت کے متعلق بات کرتے ہوئے شعوری طور پر جب انہوں نے کائنات کی وسعت 150 ارب نوری سال بتائی تو بوٹ نے فوراﹰ ان کی اصلاح  کی کہ قابلِ مشاہدہ کائنات کی وسعت 93 ارب نوری سال ہے۔

ان تجربات سے شاہ زیب صدیقی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی سے ملنے والے ڈیٹا کو لازمی کراس چیک کیا جانا چاہیے، ''اگر طلباء اس پر اندھا اعتماد کر کے یونیورسٹی کے امتحانات یا اسائنمنٹ کی تیاری کریں گے تو وہ کم نمبرز آنے پر اساتذہ سے شکوہ نہیں کر سکتے۔‘‘

پاکستانی طلباء کا چیٹ جی پی ٹی کی طرف  کتنا رجحان ہے؟

ڈاکٹر احتشام کرسچین فارمین کالج لاہور میں لائف سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حیاتیاتی سائنس میں زیر تعلیم طلباء کا رجحان چیٹ جی پی ٹی کی طرف اتنا زیادہ نہیں ہے، ''جبکہ ریاضی، طبیعیات، شماریات وغیرہ کے طلباء اس کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اس سے کیلکولیشن یا مساواتیں وغیرہ حل کرنے میں فوری مدد ملتی ہے۔‘‘

فوز صدیقی کراچی یونیورسٹی میں سپیس سائنسز کے طالبعلم ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں چیٹ جی پی ٹی نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے، ''یہ ہمہ وقت ساتھ رہنے والے ایک دوست کی طرح ہے، جو  کسی بھی طرح کا سوال یا مسئلہ حل کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔‘‘

فوز کے مطابق اس سے پہلے انہیں گھنٹوں گوگل پر اپنا متعلقہ مواد تلاش کرنا پڑتا تھا مگر وہی کام چیٹ جی پی ٹی  کی مدد سے بغیر دقت ہو جاتا ہے، ''اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ ریاضی اور طبیعیات کے کیلولیشن میں با آسانی غلط کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ جبکہ  پہلے درست جواب نہ آنے پر گھنٹوں ایرر ڈھنڈنے میں لگ جایا کرتے تھے۔‘‘

چیٹ جی پی ٹی تعلیم و تحقیق میں کتنی معاونت کر سکتا ہے؟

ڈاکٹر احتشام نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال زندگی کے ہر شعبے میں بڑھ رہا ہے۔ ان کے بقول ایگری کلچر میں بہتر فصلوں کی کاشت سے، زلزلے اور سونامی کی پیشن گوئی اور جینیات میں روز افزوں پیش رفت کے لیے جدید اے آئی ماڈلز استعمال کیے جا رہے ہیں، ''بالکل اسی طرح چیٹ جی پی ٹی بھی تعلیمی اداروں میں جاری تحقیق میں اساتذہ اور طلباء دونوں کے لیے معاون ہو سکتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر احتشام کے مطابق تحقیق کے دوران  کسی مسئلے کے حل کے لیے محققین مختلف ماڈیولز اور سافٹ ویئرز استعمال کرتے ہیں۔ لیکن چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے متعلقہ کوڈ باآسانی جنریٹ کیا جا سکے گا، جس میں اپنی ضروریات کے مطابق رد وبدل بھی ممکن ہو گا۔ اس طرح کم وقت میں زیادہ موثر اور مصدقہ نتائج حاصل کیے جا سکیں گے۔

 چیٹ جی پی ٹی کے تعلیمی نظام پر مضر اثرات کیا ہوں گے؟

ڈاکٹر احتشام نے ڈوئچے ویلےکو بتایا، ''جیسا کہ ہمارے سامنے ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کے صارفین میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو لا محالہ اس کا منفی استعمال بھی سامنے آئے گا‘‘۔ ان کے بقول نیویارک کے تعلیمی اداروں میں اس بوٹ کا استعمال پہلے ہی بین کر دیا گیا ہے کیونکہ طلباء خود محنت کرنے کے بجائے اس کی مدد سے ہوم ورک اور اسائنمنٹ تیار کر رہے تھے۔

ڈاکٹر احتشام کے مطابق کورونا وائرس وبا کے بعد سے پاکستانی طلباء کا ایسے آن لائن پلیٹ فارمز کی طرف رجحان بڑھ گیا ہے، جہاں سے انہیں تیار شدہ مواد با آسانی مل جاتا ہے، ''چیٹ جی پی ٹی اس میں ایک نیا اضافہ ہے اور لا محالہ اس کا منفی استعمال پاکستانی تعلیمی نظام کے ساتھ طلباء کی علمی و تحقیقی قابلیت کو مزید زنگ آلود کرنے کا سبب بنے گا۔‘‘

چیٹ جی پی ٹی کے منفی استعمال کا تدارک کس طرح ممکن ہوگا؟

ڈاکٹر احتشام نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ آن لائن پلیٹ فارم سے ہونے والی نقل کو پکڑنے کے لیے اساتذہ ٹرینیٹن سٹوڈیو نامی سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن پہلے سے فیڈ شدہ معلومات کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے پروسیس کر کے طلباء جو مواد  تیار کریں گے اسے پکڑنا یقینا ایک بڑا چیلنچ ہو گا۔ ان کے خیال میں اس کا ایک حل یہ ہے کہ اساتذہ مخصوص وقت میں طلباء کو  ایسے پراجیکٹس دیں جو وہ ان کے سامنے مکمل  کریں اس طرح طلباء کی قابلیت اور نقل دونوں کی قلعی کھل جائے گی۔

ڈاکٹر احتشام کے مطابق سب سے ضروری امر یہ ہے کہ طلباء میں احساسِ ذمہ داری پیدا کیا جائے، ''آج کل نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ صرف ہائی جی پی اے لینا چاہتا ہے، جس کے لیے وہ کوئی غلط طریقہ استعمال کرنے سے نہیں کتراتے۔ اس رجحان کی نفی اشد ضروری ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کا حصول نہیں ہے بلکہ یہ شعور و آگاہی بڑھانے کے ساتھ طلباء کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا حل اپنی سمجھ بوجھ اور ذہنی صلاحیتوں کے مطابق تلاش کر سکیں۔

ایک اسکول جو ایک صدی سے خصوصی بچوں کو معاشرے کے فعال افراد بنا رہا ہے