1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوٹن ایرانی اور ترک صدور سے بات چیت کے لیے تہران جائیں گے

12 جولائی 2022

روسی صدر ولادیمیر پوٹن آئندہ ہفتے ایک سرکاری دورے پر تہران جائیں گے، جہاں وہ ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی اور ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن کے ساتھ طویل عرصے سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے بارے میں مذاکرات کریں گے۔

https://p.dw.com/p/4E1GQ
دائیں سے بائیں: ترک صدر رجب طیب ایردوآن، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹنتصویر: Mikhail Metzel/SPUTNIK/Atta Kenare/Gabriel Bouys/AFP/Getty Images

ماسکو میں روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کے ترجمان نے منگل بارہ جولائی کے روز بتایا گیا کہ ولادیمیر پوٹن منگل انیس جولائی کو ایران کا دورہ کریں گے۔ یہ روسی صدر کا چوبیس فروری کے روز یوکرین پر روسی فوجی حملے کے آغاز کے بعد سے اب تک کا دوسرا غیر ملکی دورہ ہو گا۔

شام: لیک ویڈیو اسد حکومت کے جنگی جرائم کا ٹھوس ثبوت

اس سے قبل صدر پوٹن نے جون کے آخر میں وسطی ایشیا کا دورہ کیا تھا، جو روسی یوکرینی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک کا ان کا واحد غیر ملکی دورہ تھا۔

شامی تنازعے سے متعلق تین ضامن ریاستیں

کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے بتایا کہ روس، ترکی اور ایران شامی خانہ جنگی کے خاتمے کی کوششوں کے حوالے سے تین ایسی ضامن ریاستیں ہیں، جنہوں نے مل کر آستانہ میں مشترکہ سیاسی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔

انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب سابق شامی کرنل کو عمر قید

اسی لیے ان تینوں ممالک کے سربراہان مملکت کے اس اجلاس میں اس حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے گا کہ برسوں کی خونریز خانہ جنگی سے تباہ شدہ عرب ریاست شام میں قیام امن کے لیے کوششوں کو مزید آگے کیسے بڑھایا جا سکتا ہے۔

یہ واضح نہیں کہ آیا اس سہ فریقی سربراہی ملاقات کے علاوہ روسی اور ایرانی صدور آپس میں کوئی علیحدہ ملاقات بھی کریں گے۔

بشار الاسد سے متعلق متضاد پالیسی

'آستانہ اجلاس کے ضامن ممالک‘ کہلانے والے روس، ایران اور ترکی کی خاص بات یہ ہے کہ شام اور شامی صدر بشار الاسد سے متعلق ان تینوں ملکوں کی سوچ یکساں نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ مل کر مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں قیام امن کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شامی صدر بشار الاسد نے چوتھی مدتِ صدارت کا حلف اٹھا لیا

ان تین ممالک میں سے روس اور ایران شامی صدر بشار الاسد کے کلیدی اہمیت کے حامل سیاسی اور عسکری حلیف ہیں جبکہ ترکی اسد حکومت کی مخالف فری سیریئن آرمی نامی اس مسلح مزاحمتی تحریک اور دیگر شامی باغی گروپوں کی فوجی مدد کرتا رہا ہے، جو شام کے شمال مغرب میں اسد حکومت کی فورسز کے خلاف لڑتی رہی ہیں۔

ترکی کی روس اور یوکرین کے مابین ثالثی کی کوششیں

روسی صدر پوٹن اور ان کے ترک ہم منصب ایردوآن کے مابین کل پیر گیارہ جولائی کے روز ہی ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی تھی، جس میں ترک رہنما نے روسی ہم منصب پر اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ بحیرہ اسود کے کنارے بندرگاہوں کے راستے یوکرینی زرعی اجناس کی برآمد کے لیے اقوام متحدہ کی طے کر دہ راہداری کے احترام اور اس کے محفوظ استعمال کو یقینی بنائیں۔

مغرب میدان جنگ میں روس کو شکست دینا چاہتا ہے؟ تو کوشش کرکے دیکھ لے، پوٹن

اس گفتگو کے اگلے ہی روز کریملن کے ترجمان نے تصدیق کر دی کہ صدر پوٹن آئندہ منگل کے روز تہران میں ایرانی صدر رئیسی اور ترک صدر ایردوآن سے بات چیت کریں گے۔

ترکی اپنے طور پر بھی چوبیس فروری کو یوکرین پر روسی فوجی حملے کے ساتھ شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے کے لیے کییف اور ماسکو کے مابین ثالثی کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

م م / ع ت (روئٹرز، اے پی)