1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی انتخابات پر بھارتی تجزیہ کاروں کا کیا کہنا ہے؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
6 فروری 2024

پڑوسی ہونے کی وجہ سے بھارت میں بھی پاکستانی انتخابات کے حوالے سے دلچسپی رہتی ہے لیکن اس مرتبہ اس کا تذکرہ بہت کم ہے۔ البتہ نظریں اس بات پر ہیں کہ آیا اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی سے باہمی تعلقات پر جمی برف پگھل سکے گی؟

https://p.dw.com/p/4c5TY
عمران خان کے پوسٹر
تجزیہ کار سنجے کپور کا کہنا ہے کہ عمران خان کے وزارت عظمی کے عہدے پر ہوتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار تھے،تصویر: AKRAM SHAHID/AFP

بھارت اورپاکستان جمہوری ملک ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور دونوں میں ہی پارلیمانی طرز کا حکومتی نظام ہے، تاہم بھارتی حکومت نے پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے اب تک کوئی بھی بیان نہیں دیا ہے۔ بھارتی میڈیا میں بھی پاکستانی عام انتخابات کے تذکرے بہت کم یا بالکل نہ کے برابر ہیں۔ البتہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری، ان کے مقدمات کی سماعت اور سزا کے حوالے سے تواتر سے خبریں شائع ہوتی رہی ہیں اور ان پر تبصرے بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔

پاکستانی انتخابات کا پھیکا پن اور بھارت

لیکن تجزیہ کاروں کی اس پر نظر ہے اور وہ تمام واقعات قریب سے دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان میں نچلی ذات کے ہندو مناسب نمائندگی سے محروم کیوں؟

بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے معرف تجزیہ کار قمر آغا پاکستان میں الیکشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ پاکستان میں ''اب الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہوتا'' ہے۔

پاکستان کی قوم پرست جماعتیں اور انتخابی سیاست

ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انہوں نے عمران خان کی جماعت پر عائد غیر سرکاری پابندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصور تو عام ہو چکا ہے کہ ''ووٹنگ سے قبل ہی دھاندلی کی جا چکی ہے، کیونکہ مقبول ترین جماعت کو تو تقریباً انتخابات سے باہر کر دیا گیا ہے۔''

پاکستانی مذہبی جماعتیں اور انتخابی سیاست میں ناکامی

پاکستان میں کس طرز کی جمہوریت ہے؟

پاکستانی امور کے ماہر سینیئر صحافی کلول بھٹا چاریہ کا کہنا ہے کہ ''انتخابات یہ طے کریں گے کہ پاکستانی جمہوریت کی سمت کیا ہے۔ وہ کس جانب گامزن ہے؟'' ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ویسے تو پارلیمانی نظام حکومت ہے تاہم سن 1947 کے بعد سے اب تک ''ویسٹ منسٹر کا نظام نافذ نہیں ہو سکا۔''

پشاور میں پی ٹی آئی کا جلسہ
کلول کے مطابق عمران خان کے دور حکومت میں پہلی بار اس بات کا واضح اشارہ ملا تھا کہ 'وہ پارلیمانی بالادستی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس الیکشن میں اب تک تو سب کچھ فوج کے ہاتھ میں ہےتصویر: Hussain Ali/ZUMA/picture alliance

ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں کلول نے بتایا کہ عمران خان کے دور حکومت میں پہلی بار اس بات کا واضح اشارہ ملا تھا کہ ''وہ پارلیمانی بالادستی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس الیکشن میں اب تک تو سب کچھ فوج کے ہاتھ میں ہے، تو ان انتخابات سے اتنا تو پتہ چلے کہ وہ کس قسم کی جمہوریت ہونے جا رہا ہے؟''

آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کی نشستیں مختص کیوں نہیں کی جاتیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو ایران جیسے ممالک بھی جمہوری ملک ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن اگر آپ پارلیمانی نظام حکومت ہیں تو، ''پارلیمان نظام کی بالا دستی قائم ہونی چاہیے، جس میں وزیر اعظم کو سب پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔''

مخلوط حکومت کا امکان

قمر آغا کہتے ہیں کہ یہ انتخابات کتنے صاف شفاف ہوں گے اس کا پتہ اسی وقت چلے گا، جب پولنگ مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا: ''ایک ایسی مخلوط حکومت کے قیام کا امکان زیادہ ہے، جس میں انتہائی دائیں بازو اور لبرل سبھی شامل ہو سکتے ہیں۔ نواز شریف کے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں اس لیے وہ عمران خان کی جگہ لے سکتے ہیں۔ تاہم ہر حال میں فوج کا کردار ہی اہم رہے گا۔''

پاکستان: عمران خان اور ان کی پارٹی کا اب کیا ہو گا؟

کلول بھٹا چاریہ کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بعد پاکستان جو سمت اختیار کرے گا، اس میں ''ملک کے موجودہ چیف جسٹس کا بہت بڑا کردار ہو گا۔'' ان کے مطابق پاکستان کے چیف جسٹس پروگریسیو خیال کے ہیں اور انتخابات کے بعد کے نتائج کی روشنی میں بہت سے مقدمات ان کے پاس ہوں گے اور ان مقدمات کے حوالے سے ان کا کردار بہت اہم ہو گا۔

قمر آغا کہتے ہیں کہ جو بھی حکومت بنے گی اس کے جواز پر بھی سوال اٹھیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ عمران خان کے حامیوں کا ایک مطالبہ ابھی سے زور پکڑ رہا ہے کہ اگر انتخابات شفاف نہ ہوں تو حکومت کو تسلیم ہی نہ کیا جائے۔''

سکھر میں اولین خاتون آزاد امیدوار الیکشن کی دوڑ میں

کیا نئی حکومت کے بعد بھارت پاکستان تعلقات بہتر ہوں گے؟

کلول بھٹا چاریہ کے مطابق یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کیا سمت اختیار کرتے ہیں، کیونکہ بھارت میں بھی آئندہ چند ماہ کے اندر ہی انتخابات ہونے والے ہیں۔

تاہم تجزیہ کار سنجے کپور کافی پر امید ہیں۔ ان کے مطابق نئی دہلی اور اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں یہ توقع کی جا رہی ہے کہ نواز شریف دوبارہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں کہا، ''نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم مودی یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ مل کر کام کر سکتے ہیں۔''

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے وزارت عظمی کے عہدے پر ہوتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، یہ اس سے بالکل مختلف ہوگا۔ تاہم بہت کچھ اس بات پر بھی منحصر ہو گا کہ جب بھارت بھی پارلیمانی انتخابات کی دہلیز پر ہے، تو بھارت میں اس سیاسی تبدیلی کو کس طرح سے دیکھا جاتا ہے۔''

ان کا مزید کہنا ہے، ''اگر مودی سوچتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ان کی پارٹی کو انتخابی طور پر مدد دے سکتے ہیں، تو آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد اچھے آپٹکس کی توقع کریں۔ میرے خیال سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی آ رہی ہے۔''

قمر آغا بھی اس سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج کا نواز شریف کو ''واپس لانے کا ایک مقصد بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا بھی ہو سکتا'' ہے۔ تاہم سوال یہ بھی ہے کہ مخلوط حکومت کتنی مستحکم ہو گی، ''کتنے دن چل سکے گی، تو ''بھارت ویٹ اینڈ واچ کی پالیسی پر عمل کرے گا۔''

وہ کہتے ہیں کہ ویسے بھی پاکستان بھارت کے ساتھ، ''بہت زیادہ دوستی کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ اگر دوستی ہو گئی، تو فوج کو بیرک میں واپس جانا پڑے گا اور ایسے میں ان کی پوزیشن ثانوی ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس لیے وہ بھارتی خطرے کو برقرار رکھ کر اپنی پوزیشن برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔'' 

پاکستانی الیکشن: ڈس انفارمیشن کا استعمال کیسے اور کیوں کیا جاتا ہے؟