1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، ایران گیس پائپ لائن ایک مرتبہ پھر موضوع

شکور رحیم، اسلام آباد12 مئی 2014

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے تہران کے دو روزہ سرکاری دورے کے آخری دن آج پیر 12 مئی کو ایران کے سپریم لیڈر سید علی آیت اللہ خامنائی سے ملاقات کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1ByKP
تصویر: Getty Images

پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف دو روزہ دورے پر ایران میں ہیں۔ دونوں ممالک نے خطے کی ترقی وخوشحالی کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس موقع پر مشترکہ سرحدی کمیشن کے قیام سمیت مخلتف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کے لیے تہران میں آٹھ سمجھوتوں اور مفاہمت کی یاداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔

ایران کے سپریم لیڈر سید علی آیت اللہ خامنائی سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دوران دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہء خیال کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کا ایک تاریخی پس منظر ہے اور دونوں مسلم ممالک کی مشترکہ روایات انہیں خصوصی بناتی ہیں۔ آیت اللہ خامنائی نے کہا کہ انہیں ایرانی عوام کی طرح پاکستانی عوام بھی عزیز ہیں۔ ایرانی روحانی پیشوا نے اس اعتماد کا اظہار بھی کیا کہ پاکستانی وزیراعظم کے دورہ ایران سے دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔

ایرانی عوام کی طرح پاکستانی عوام بھی عزیز ہیں، آیت اللہ خامنائی
ایرانی عوام کی طرح پاکستانی عوام بھی عزیز ہیں، آیت اللہ خامنائیتصویر: Leader.ir

اس سے قبل پاکستانی وزیر اعظم نے اتوار 11 مئی کو ایرانی صدر حسن روحانی سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کو دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں قرار دیتے ہوئے منصوبے کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ واضح رہے کہ پاکستانی حکومت نے ایران سے گیس کی برآمد کے لیے اس پائپ لائن منصوبے پر اس سال فروری میں کام معطّل کرنے کا اعلان کیاتھا۔ اس اعلان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔

سابق سفیر اور تجزیہ کار علی سرور نقوی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں گرمجوشی دیکھنے میں آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’پاک ایران گیس پائپ لائن پر بات ہوئی ہے اور جو آٹھ معاہدے ہوئے ہیں، اس سے باہمی تعلقات کو بہت فروغ ملے گا۔ تجارت، اقتصادی تعلقات اور توانائی کے معاملات کے علاوہ دیگر علاقائی صورتحال پر دونوں ممالک کی سوچ ایک ہے۔ یہ ساری چیزیں بہت اہم ہیں۔‘‘

پاکستانی وزیراعظم نے ایران کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب اس سال فروری میں ہی جیش العدل نامی گروہ کے شدت پسندوں کی جانب سے پانچ ایرانی سرحدی محافظوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ ان میں سے چار مغویوں کو اپریل کے مہینے میں رہا کر دیا گیا تھا تاہم پانچویں کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ کہاں پر ہے۔ البتہ اس شدت پسند گروپ کا کہنا تھا کہ اس محافظ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ایران کا اصرار ہے کہ مغوی اہلکاروں کو پاکستانی علاقے میں لایا گیا تھا۔ تاہم پاکستان اس کی سختی سے تردید کرتا آیا ہے۔ بظاہر دونوں ممالک کے درمیان اس معاملے پر بھی تناؤ دیکنھے میں آیا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے ملاقات کے دوران ایرانی صدر حسن روحانی کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی جسے انہوں نے قبول کر لیا
وزیراعظم نواز شریف نے ملاقات کے دوران ایرانی صدر حسن روحانی کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی جسے انہوں نے قبول کر لیاتصویر: Reuters

علی سرور نقوی کے مطابق آگے چل کر افغانستان کے معاملے پر بھی دونوں ہمسایہ ممالک کا کردار مزید اہم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کا افغانستان کے شمالی اور کچھ جنوبی حصوں میں اثر و رسوخ ہے جبکہ پاکستان کو افغانستان کے مشرقی پشتون اکثریتی علاقوں میں حمایت حاصل ہے۔ علی سرور نقوی کے مطابق افغان صدارتی انتخابات کے نتائج آنے اور وہاں سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان اور ایران کا کردار انتہائی اہم ہوگا۔ انہوں نے کہا، ’’وزیراعظم نواز شریف نے یہ کہا کہ ہمارے نہ تو وہاں(افغانستان) کوئی دوست ہیں اور نہ ہی دشمن ہیں۔ اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی سوچ اب مضبوط اور یکساں ہے۔ تو اس سے یہ آسانی ہوگی کہ ہم ایران سے بھی بات کر سکتے ہیں کہ ایران کا جہاں پر اثر ہے وہاں ایران اثر انداز ہو اور جہاں پاکستان کا ہے وہ ان گر وہوں اور خطے پر اثر انداز ہو۔ یوں دونوں مل کر افغانستان میں استحکام لا سکتے ہیں۔‘‘

دریں اثناء اسلام آباد میں جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے ملاقات کے دوران ایرانی صدر حسن روحانی کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔