1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قدیم ترین مردہ کہکشاں کے بارے میں نئے انکشافات

21 اپریل 2024

جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی مدد سے قدیم ترین مردہ کہکشاں کے بارے میں نئے انکشافات کائنات کی ابتدا اور اس کی تخلیق کے بارے میں مزید معلومات فراہم کریں گے۔ یہ کہکشاں 2010 میں دریافت کی گئی تھی۔ بھلا یہ مردہ کہکشاں ہوتی کیا ہے؟

https://p.dw.com/p/4exmQ
Bilder des Jahres 2020, News 12 Dezember News Bilder des Tages December 15, 2020, USA: Using the unique capabilities of
تصویر: imago images/ZUMA Wire

یونیورسٹی آف کیمبرج کے کاولی انسٹی ٹیوٹ آف کاسمولوجی کے ماہرین فلکیات کے مطابق جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی مدد سے قدیم ترین 'مردہ کہکشاں‘ کے بارے میں ملنے والے حقائق اس کائنات کو زیادہ بہتر انداز سے سمجھنے میں معاون ہوں گے۔ یہ کہکشاں 13.1بلین (ارب) سال پرانی ہے، جس میں کسی وجہ سے ستاروں کے بننے کا عمل بند ہوگیا تھا۔

 نیچر سائنس جنرل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق یہ مردہ کہکشاں بگ بینگ یا کائنات کی ابتدا کے 700 ملین سال بعد وجود میں آئی تھی۔ ماہرین فلکیات نے اسے JADES-GS-z7-01-QU  کا نام دیا ہے، جو اب تک دریافت ہونے والی قدیم ترین مردہ  کہکشاں ہے۔

ماہرین فلکیات کے مطابق جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی مدد سے انفراریڈ روشنی میں ان قدیم ترین اجسام کو دیکھا جا سکتا ہے، جو  پہلے کاسمک ڈسٹ یا کائناتی دھول کے گہرے پردے میں چھپے ہوئے تھے۔ یہ مردہ کہکشاں اب تک دریافت ہونے والی قدیم  ترین خاموش کہکشاؤں سے کئی گنا ہلکی بھی ہے۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی پہلی رنگین تصویر، کائنات کے نئے رازوں سے پردہ اٹھنے کی امید

ہبل اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ مشن میں اہم کردار ادا کرنے والی نوجوان سائنسدان ڈاکٹر منزہ عالم

مردہ کہکشاں کیا ہوتی ہے؟

کیمبرج یونیورسٹی کے کاولی انسٹی ٹیوٹ آف کاسمولوجی سے وابستہ سائنسدان  ٹوبیاس جے لوزر اس تحقیق کے مرکزی مصنف ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اگر کسی کہکشاں میں ستارے بننے  کا عمل بند ہو جائے تو اسے علم فلکیات کی اصطلاح میں ’مردہ یا خا موش کہکشاں‘ کہا جاتا ہے۔

ستارے ویسے نہیں چمکتے جیسا ہمیں یہ زمین سے دکھائی دیتے ہیں

وہ مزید بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی کئی مردہ کہکشائیں دریافت کی جا چکی ہیں مگر یہ نئی کہکشاں ان سے نہ صرف بہت چھوٹی ہے بلکہ یہ بگ بینگ سے صرف 700 ملین سال بعد وجود میں آئی تھی۔

جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے ایڈوانسڈ ڈیپ سپیس سروے  سے حاصل شدہ  ڈیٹا کے مطابق  اس کہکشاں میں ابتدا میں ستاروں کے بننے کا عمل بہت تیز تھا، جو تقریبا 30 سے 90 ملین سال کے در میان تک جاری رہا اور پھر اچانک یہ عمل  کسی وجہ سے بند ہوگیا۔

نئی دریافت حیران کن کیوں ہے؟

کاولی انسٹی ٹیوٹ آف کاسمولوجی سے وابستہ اس تحقیق کے شریک مصنف رابرٹو مائی لینو کہتے ہیں کہ اس نئی دریافت نے ماہرین فلکیات کو حیرت زدہ کر دیا ہے کیونکہ جس وقت اس کہکشاں میں ستارے بننے کا عمل بند ہوا،  وہ کائنات کی ابتدا کے بعد انتہائی ’ایکٹیو‘ یا متحرک و فعال  دورانیہ تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ بگ بینگ کے بعد  کئی بلین (ارب) سال تک کائنات میں ستاروں کے بننے کا عمل عروج پر تھا  کیونکہ اس وقت کائناتی دھول یا کاسمک ڈسٹ اور گیسیں وافر مقدار میں موجود تھیں۔

مائی لینو کے مطابق ان کی ٹیم ان تمام امکانات پرغور کر رہی ہے، جن کے باعث اس قدیم کہکشاں میں ستارے بننا بند ہوگئے تھے۔ وہ  وضاحت کرتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کو سمجھنے کے لیے ماہرین فلکیات اس کی ابتدا سے متعلق جدید ماڈلز استعمال کرتے ہیں۔

ان کے مطابق اس نئی دریافت شدہ مردہ کہکشاں نے ماہرین کو اس لیے بھی حیران کیا ہے کیونکہ بگ بینگ سے ایک  بلین (ارب) سال سے بھی کم عرصے میں نہ صرف یہ مکمل کہکشاں کے خدوخال میں ڈھل گئی بلکہ فورا ہی اس  میں ستارے بننے کا عمل بھی بند ہوگیا۔

مائی لینو بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے جو مردہ کہکشائیں دریافت ہوئی ہیں، ان میں ستارے بننے کا عمل بگ بینگ کے تقریبا  3  بلین (ارب) سال بعد بند ہوا تھا۔ لہذا اس نئی کہکشاں پر تحقیق سے ماہرین کائنات کی ابتدا کے متعلق نئی معلومات حاصل کر سکیں گے ۔ وہ کہتے ہیں کہ  عین  ممکن ہے کہ نئی تحقیق سے  جدید کائناتی ماڈلز کو از سر نو ترتیب دینا پڑے۔

کیا نئی تحقیق بگ بینگ کو رد کرتی ہے؟

ماہر فلکیات  طاہر کریول نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بگ بینگ ایک جدید فلکیاتی ماڈل ہے، جو کاسمک مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ اور دور کے اجسام کے زیادہ ریڈ شفٹ میں وضاحت کرتا ہے۔ اس ماڈل کے مطابق کائنات کی ابتدا کے وقت ہائیڈروجن گیس وافر مقدار میں تھی، جس سے ستارے بنتے ہیں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ پھر  چھوٹی کہکشاؤں کے آپس میں مدغم ہونے سے بڑی کہکشائیں بنیں۔ ان کہکشاؤں میں ستارے بننے کا عمل بند ہونے میں بھی کئی ارب سال لگتے ہیں کیونکہ یہ ایک سست رفتارعمل ہوتا ہے۔ 

جیمز ویب ٹیلی سکوپ کائنات کے کون سے پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھائے گی؟

ہبل کا متبادل جیمز ویب تنازعے کی زد میں

طاہر کریول کے مطابق  JADES-GS-z7-01-QU نامی کہکشاں دراصل  2010 میں دریافت ہوئی تھی۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے جائزے سے ملنے والے  نئے ڈیٹا کے نتائج  مارچ 2024 میں شائع کیے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کہکشاں میں خاص بات یہ ہے کہ  بگ بینگ کے 700 ملین سال بعد جب دیگر کہکشائیں بن رہی تھیں تو یہ اس وقت تک غیر متحرک یا مردہ ہو چکی تھی۔

سائنسی لکھاری اور ماہر فلکیات شاہزیب صدیقی بھی اس  بات سے متفق ہیں کہ  نئی تحقیق کے نتائج بگ بینگ کو رد نہیں کرتے بلکہ ماہرین  غور کر رہے ہیں کہ اس طرح کی کہکشاؤں کو پرانے ماڈل میں کیسے فٹ کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ سائنسدان  یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا کیا ہوا جس کے باعث اس کہکشاں میں ستارے بننےکا عمل بند ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کہکشاں میں ستارے بننے کا عمل تیزی سے  پھٹنے کے باعث اس میں  کاسمک ڈسٹ اور گیسوں کے ذخائر ختم ہوگئے ہوں جو نئے ستارے بننے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

کائنات سے متعلق ہماری سوچ بدلتی دوربین