1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شاہ کو خبر ہو، تنی رسی پر چلتا کسان گر گیا ہے

25 اگست 2022

سیلابی ریلوں میں بہتے یہ جانوروں کے ریوڑ نہیں بلکہ ریوڑ کے ہر جانور سے کسان کی ایک جدا اُنسیت ہے۔ کسان کی ان سے محبت کے پیچھے معاشی مفادات بھی ہو سکتے ہیں لیکن کسان کے بچوں کی ان سے محبت بے لوث ہے۔

https://p.dw.com/p/4G0Z3
Pakistan Regen Überschwemmungen
بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں ہر طرف تباہی کے مناظر ہیںتصویر: Zahid Hussain/AP Photo/picture alliance

بہتے ریوڑوں میں یہ جانور بے نام نہیں ہیں۔ جانوروں کے یوں بہہ جانے کا دکھ تو کسان اور اس کے بچے جانتے ہیں یا پھر وہ ماں جانتی ہے کہ جس کے بچوں کے رزق کا براہ راست وسیلہ یہ جانور تھے۔

 میں نے آنکھ کھولی تو اپنے آس پاس جانوروں کو دیکھا۔ میرے دادا اور دادی نے سب کے نام رکھے ہوئے تھے۔ دادی جب دودھ دوہتی تو پہلے گائے کو پچکارتی تھی۔ پیار سے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرتی۔ کئی گھروں میں تو یہ منظر عام تھا کہ خواتین دودھ دوہتے ہوئے گائے یا بکری سے باتیں کرتی رہتیں۔ اپنے دکھ، بچوں کے حوالے سے اپنی خواہشات، گلے شکوے، اپنی بیماریاں، یہ سب کچھ گائے کو بتاتی رہتیں اور میں کہ بچہ تھا مجھے یوں لگتا تھا جیسے گائے یہ سب باتیں بہت سنجیدگی سے سن رہی ہے۔

پھر جب کسی گائے کو حمل ٹھہرتا تو اس کی خدمت دوگنی کر دی جاتی۔ جب جنم دینے کا وقت آتا تو گائے کے ساتھ دادی کے مکالمے سننے لائق ہوتے۔ کاش میں اس وقت یہ سب کسی صفحے پر رقم کر لیتا۔

 یوں سمجھیے کہ اس وقت ایک انسان جانور سے مکالمہ نہیں کر رہا ہوتا تھا بلکہ دو مائیں ایک دوسرے کو دلاسا دے رہی ہوتی تھیں، ہمت بندھا رہی ہوتی تھیں۔ بار بار کچھ لفظ سنائی دیتے، جھلی نہ ہووے تاں، یعنی پاگل کہیں کی یہ مشکل وقت ہے گزر جائے گا۔ دادی ہر تھوڑی دیر بعد پانی کا چھینٹا گائے کے منہ پر مارتیں اور حوصلہ بڑھانے کے لیے اس کے نام سے پکارتی چلی جاتیں۔

جانوروں سے محبت اور احترام کا یہ عالم تھا کہ ہمارے گھر میں ایک مرغ کچھ زیادہ ہی بڑا ہو گیا یعنی کوئی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ اس کو ذبح کیا جا سکتا۔ اتفاق سے نہ نزدیک کوئی عید آئی اور نہ ہی کوئی گھر میں بیمار پڑا۔ یہ مرغ کچھ عمر رسیدہ ہو گیا۔ دادی نے فیصلہ کیا کہ کیونکہ یہ اب بزرگ ہو گیا ہے تو اس کو ذبح کرنا مناسب نہیں۔ بہرحال وہ موصوف گھومتے پھرتے رہے اور طبعی موت پائی۔

برصغیر میں زراعت سب سے بڑا شعبہ رہا ہے۔ جب کسان مکمل طور پر فطرت پر انحصار کر رہا ہوتا ہے تو وہ خود بخود ہی مظاہر پرست ہو جاتا ہے۔ یہ مظاہر پرستی آپ کو برصغیر میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتی رہی ہے۔

 ایک کسان سے زیادہ بارش سے پیار کرنے والا اس روئے ارض پر اور کون ہو گا لیکن یہی بارش جب زیادہ ہو جائے تو بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔ ہمارا تعلق بارانی علاقے سے تھا، جہاں بارش کی پرستش کی حد تک محبت کی جاتی ہے لیکن جیسے ہی بارش شروع ہوتی تو دادا دادی اور علاقے کے ہر بشر کی زبان پر ایک تکرار خود بخود رواں ہو جاتی۔

ایک ہی جملہ تھا، جس کی تکرار تھی اور وہ جملہ یہی تھا کہ یہ بارش خیر کی ہو۔ ایک اور جملہ جو بہت تواتر سے بولا جاتا اور اس جملے کا تعلق بارش سے نہیں تھا بلکہ شب وروز ہی یہ جملہ بولا جاتا۔ جملہ یہ تھا کہ اللہ انہونیوں سے بچائے۔ یہ فقرہ کسان اور اس کے خاندان کے افراد کی نفسیات پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہے وہ کیسے؟

کسان ایک بازیگر کی طرح ایک تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہوتا ہے۔ بارش ضروری بھی ہے لیکن زیادہ بارش تباہ کن بھی ہے۔ جانوروں کی تعداد بڑھانا ضروری بھی ہے لیکن وبا آئی تو سب لے اڑے گی۔

 کھلیان پر بھوسہ اور گندم کو جدا کرنے کے لیے ہوا ضروری بھی ہے لیکن یہ ہوا جھونکوں کی شکل میں ہو، تیز ہوا سب برباد کر دے گی۔ فصل کو جلد منڈی پر پہنچانا بھی ضروری ہے لیکن جلد پہنچانے میں ریٹ کم لگنے کے بھی خدشات ہیں۔

کسان جس بے یقینی کو جھیلتا ہے وہ کسان ہی جانتا ہے۔ یہی وہ حد درجے کی بڑھی ہوئی بے یقینی ہے کہ وہ شب و روز یہی دعا کرتے چلے جاتے کہ خدا انہونیوں سے بچائے۔ انہونیوں سے ایک مراد یہ بھی تھی کہ ہم شدید بے یقینی والی دنیا سے تو ویسے ہی نبرد آزما ہیں، اب کہیں کوئی بیماری نہ چلی آئے، کہیں کوئی کسی کے حادثے کی خبر نہ آ جائے۔

کچھ اس انداز کی ایک نظم بھی یاد آ رہی ہے، جو گلگت بلتستان میں پڑھی جاتی تھی کہ 'خدا کرے آج کچھ نہ بدلے‘۔

پھر کچھ ایسے شاطر بھی اس دنیا میں ہیں کہ نظم و نسق سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ نظم و نسق چلانے پر، جو اخراجات آتے ہیں، ان اخراجات کا بیشتر حصہ یہ کسان ہی پورا کرتے ہیں۔ نظم و نسق چلانے والوں کی پرتعیش زندگی بھی کسان ہی کے مرہون منت ہے لیکن کسان خود اس لیے ابتری کا شکار ہے کیونکہ وہ ایک تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہے۔ کوانٹم فزکس کے 'اصول بے یقینی‘ کی اصطلاح، جب بھی نظر سے گزرتی ہے تو نہ جانے کسان کیوں ذہن میں آجاتا ہے؟

بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں۔ یہ کون تباہ ہو رہے ہیں؟ یہ وہ ہیں، جن کی وجہ سے اشرافیہ پرتعیش زندگی گزارتی ہے۔ یہ بہتے ہوئے جانوروں کی ویڈیوز، جو سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں، یہ دل دہلا دینے والی ہیں۔

 یہ جانور، جو بے نام نہیں ہیں، بہہ رہے ہیں۔ پانی سے سر باہر نکالے گرد وپیش کو حیرانی سے دیکھتے ہیں۔ یہ جانور نہیں بہہ رہے بلکہ کسانوں کی برسوں کی کمائی بہہ رہی ہے۔ ایک کسان کو یہ سب جانور دوبارہ پالنے اور بڑا کرنے میں بہت وقت چاہیے۔

 بچے کھلے آسماں کے نیچے ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ ان کے پیارے جانور کہاں گئے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، باغات اجڑ چکے ہیں ۔ ہر کسان اپنی زندگی میں دس سے پندرہ سال پیچھے چلا گیا ہے۔

شاہ کو اس سب کی خبر تو ہے، فرصت نہیں ہے۔ دربار کی راہداریوں میں سرگوشیاں ہیں، پنپتی سازشیں ہیں اور انہیں سازشوں پر دربار میں گفتگو ہو رہی ہے۔ کچھ دشمنوں کو عبرت کا نشانہ بنانا بھی مقصود ہے۔

 شاہ اور اس کے درباریوں کو بالکل بھی علم نہیں کہ یہ سب دربار اور یہ سب جاہ و جلال دینے والا کسان ہی اگر نہ رہا تو تم کیونکر رہ سکتے ہو؟ تنی ہوئی رسی پر چلتا کسان اگر گر گیا تو تمہارا سب جاہ و جلال، حکومت اور عالیشان عمارتیں زمیں بوس ہو جائیں گی۔ 

یہ میرے سندھ کا حال ہے!

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔