بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ میں پانچ خواتین کا اغوا اور گینگ ریپ
22 جون 2018مقامی پولیس افسر راجیش پرشاد نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ خواتین ایک غیر سرکاری تنظیم آشا کرن کے لیے کام کرتی ہیں جس کی معاونت ایک مقامی مسیحی مشنری گروپ کرتا ہے۔ پولیس کے پاس درج ان خواتین کی شکایت میں کہا ہے کہ وہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف ایک ڈرامے میں پرفارم کر رہی تھیں جب انہیں اغوا کیا گیا۔ کھنٹی کا ضلع ماؤ نواز مسلح باغیوں کا بھی گڑھ ہے جو ایک طویل عرصے سے یہاں زمین کے حقوق کی مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں۔
پولیس افسر پرشاد کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کے ذمہ داران تک پہنچنے کے لیے متعدد افراد سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اغوا کاروں نے بلیک میلنگ کی غرض سےسارے واقعے کی ویڈیو بنائی اور خواتین کو پولیس کے پاس جانے کی صورت میں دھمکی بھی دی۔
پولیس نے علاقے میں پتھل گاڑی نامی ایک تحریک کے کچھ حامیوں کو بھی حراست لیا ہے۔ ’پتھل گاڑی‘ ایک فوج مخالف تحریک ہے جو متعدد قبائلی دیہات میں مقبول ہے۔
مقامی پولیس افسر راجیش پرشاد کا کہنا ہے کہ اغوا اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی طبی جانچ کی گئی ہے اور پولیس کو نتائج کا انتظار ہے۔
بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ کے ضلع پاکور میں گزشتہ ماہ ایک سترہ سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی تھی۔
بھارت میں جنسی زیادتی اور اقدام قتل کے اس طرح کے واقعات کی وجہ سے عوام میں غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔ اگرچہ حکومت نے ایسے جرائم کے سدباب کے لیے قوانین سخت بنائے ہیں تاہم ان اقدامات کے باوجود ایسے جرائم کے واقعات میں کمی کے اعتبار سے کوئی واضح پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔
ص ح/ ع ت / اے ایف پی