1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبرطانیہ

برطانیہ میں مقیم یورپی شہری: لندن حکومت نے شکست تسلیم کر لی

16 فروری 2023

برطانیہ میں مقیم یورپی یونین کے رکن ممالک کے شہریوں کے بریگزٹ کے بعد بھی وہاں مستقل قیام کے حق سے متعلق قانونی جنگ میں لندن حکومت نے اپنی حتمی عدالتی ناکامی تسلیم کر لی ہے۔ اس فیصلے سے لاکھوں افراد کو فائدہ پہنچے گا۔

https://p.dw.com/p/4NZMM
UK Brexit | Aufenthaltsstatus von EU-Bürgern
سول رائٹس تنظیم ’دی تھری ملین‘ کے ارکان لندن میں برطانوی پارلیمان کے نواح میں احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئےتصویر: Tom Nicholson/London News/ZUMA/dpa/picture alliance

برطانیہ سالہا سال تک یورپی یونین کا رکن رہا تھا اور پھر ایک عوامی ریفرنڈم کے نتیجے میں لندن حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ اس عمل کو یورپی یونین سے برٹش ایگزٹ یا بریگزٹ کا نام دیا گیا تھا۔

بریگزٹ کے بعد برطانوی امیگریشن، تجارت اور سیاحت پر پڑنے والے اثرات

بریگزٹ کے سلسلے میں برسلز میں یورپی یونین کے حکام اور لندن حکومت کے نمائندوں کے مابین بہت طویل مذاکرات کے بعد جو معاہدہ طے پایا تھا، اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ بریگزٹ کے وقت یونین کے مختلف رکن ممالک کے جتنے بھی شہری برطانیہ میں مقیم ہوں گے، ان کو اگر وہ چاہیں تو برطانیہ میں ہی مستقل قیام کا حق دیا جائے گا۔

دو مراحل پر مشتمل متنازعہ قانونی طریقہ

بریگزٹ کے بعد برطانوی حکومت نے ملک میں داخلی سطح پر جو اقدامات کیے، ان میں یہ بھی شامل تھا کہ اس ملک میں مقیم یورپی شہریوں کو دو مراحل پر مشتمل ایک نئی قانونی کارروائی کے دوران یہ ثابت کرنے کا پابند بنا دیا گیا تھا کہ وہ بریگزٹ سے پہلے بھی برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم تھے۔

یورپی یونین کے سالانہ بجٹ میں جرمنی کا حصہ: ریکارڈ پچیس بلین یورو

Symbolbild Beziehung UK EU
برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج طویل مذاکرات کے بعد ایک جامع بریگزٹ معاہدے کے ساتھ عمل میں آیا تھاتصویر: Niklas Halle'N/AFP/Getty Images

’شمالی آئرلینڈ کا برطانوی سامان کی چیکنگ روکنا بریگزٹ کی خلاف ورزی‘

یہ فیصلہ اس لیے بہت متنازعہ ہو گیا تھا کہ برطانیہ میں مقیم لاکھوں یورپی شہریوں کے حقوق کے لیے سرگرم سول رائٹس تنظیم 'دی تھری ملین‘ (The3Million) نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور مقدمہ دائر کر دیا تھا۔

اس بارے میں لندن ہائی کورٹ نے گزشتہ برس کرسمس سے چند روز قبل اپنا جو فیصلہ سنایا تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے یورپی شہریوں کو برطانیہ میں اپنی قانونی رہائش ثابت کرنے کا دو مراحل پر مشتمل جو لازمی طریقہ کار متعارف کرایا، وہ بریگزٹ معاہدے میں درج شرائط کی خلاف ورزی ہے۔

برطانیہ میں مقیم یورپی ممالک کے ہزاروں بچوں کا دوہرا المیہ

اس طریقہ کار کے تحت یہ ممکن تھا کہ برطانیہ میں رہائش پذیر یورپی شہری مستقبل میں بھی وہاں اپنے مستقل قیام کے لیے دوسرے مرحلے میں اگر دوبارہ ایک نئی درخواست نہیں دیتے، تو وہ اس ملک میں اپنے طویل المدتی قیام کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔ لندن ہائی کورٹ نے اسی قانونی طریقے کو بریگزٹ معاہدے کے منافی قرار دیا تھا۔

لندن حکومت اپیل نہیں کرے گی

سیاسی نیوز پورٹل 'پولیٹیکو‘ نے جمعرات 16 فروری کے روز لندن حکومت کے بیانات کے حوالے سے بتایا کہ ملکی وزارت داخلہ نے اس مقدمے میں اپنی قانونی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے اب اس کے خلاف کوئی اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تقریباﹰ پانچ ملین یورپی شہریوں کی برطانیہ میں رہائش کی درخواست

برطانوی وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق، ''حکومت اس عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کرے گی اور اب اس فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کو یقینی بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔‘‘

برٹش سول رائٹس تنظیم 'دی تھری ملین‘ نے اس نئے موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ لندن حکومت نے عدالت میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے جس رویے کا مظاہرہ کیا، وہ قابل ستائش ہے اور اب بلا تاخیر ایسے اقدامات کیے جانا چاہییں جن کی مدد سے برطانیہ میں مستقل رہائش پذیر یورپی شہریوں کو ان کے تمام شہری حقوق مل سکیں۔

م م / ش ر (ڈی پی اے، پولیٹیکو)