1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہء جنوبی چین میں بھارتی مفادات کی حقیقت

13 دسمبر 2012

چین بحر ہند کے علاقے میں کئی بندر گاہی منصوبوں میں بے تحاشا سرمایہ کاری کر رہا ہے اور بھارت کی بحیرہء جنوبی چین میں تجارتی دلچسپی بھی کافی زیادہ ہے۔ دونوں ملک اپنی بحری طاقت پر توجہ دے رہے ہیں۔ یہ غیر اہم بات نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/171vb
تصویر: Reuters

چین کے ساتھ تعلقات کا موضوع اس وقت بھارت کی خارجہ سیاسی ترجیحات میں سب سے اوپر ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے منگل گیارہ دسمبر کوایک بیان میں کہا کہ بحر ہند کے علاقے میں بڑھتا ہوا چینی اثر و رسوخ ایک ایسی پیش رفت ہے جسے نئی دہلی کو قبول کرنا ہو گا۔

صرف چھ ہفتے قبل اپنے موجودہ منصب پر فائز ہونے والے سلمان خورشید نے نئی دہلی میں ملکی سیاسی قیادت سے غیر معمولی طور پر واضح الفاظ میں مطالبہ کیا کہ اسے اس چیلنج کا حل تلاش کرنا ہو گا۔

بھارتی وزیر خارجہ کے بقول چین اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے سلسلے میں مسلسل آگے بڑھنے کی سوچ پر عمل پیرا ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ چین بھارت کا پارٹنر بھی ہے اور ہمسایہ بھی۔ سلمان خورشید کے مطابق بھارتی سفارتکاری کے لیے چیلنج یہ ہو گا کہ دونوں ملکوں کی طاقت کو دونوں ریاستوں کے مفادات کے مطابق استعمال میں لایا جائے۔

Marine Admiral Devendra Kumar Joshi Indien
بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل جوشیتصویر: Prakash Singh/AFP/Getty Images

دلچسپ بات یہ ہے کہ سلمان خورشید نے جو بات کی، اس کے مخاطب دیگر شخصیات کے علاوہ بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل دیویندر کمار جوشی بھی تھے۔ انہوں نے سلمان خورشید کے بیان سے کچھ ہی عرصہ قبل کہا تھا کہ بھارت بحیرہء جنوبی چین میں اپنے اقتصادی اور بحری مفادات کے تحفظ کے لیے عسکری حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

ایڈمرل جوشی نے یہ بات کہہ تو دی لیکن وہ بھی جانتے ہیں کہ بھارت اس خطے میں کسی علاقے پر اپنی ملکیت کا کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔ ساتھ ہی ایڈمرل جوشی نے یہ بھی کہا تھا کہ چینی فوج کو جدید بنانے کا عمل بہت متاثر کن ہے اور بھارتی سیاسی قیادت کو بھی بلاتاخیر اور لازمی طور پر اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔

Salman Khurshid
بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشیدتصویر: AFP/Getty Images

چین اور بھارت میں مسلح افواج اور دفاعی بجٹ کے حوالے سے پایا جانے والا فرق بھی کافی زیادہ ہے۔ چین کا اس سال کا دفاعی بجٹ 11 فیصد کے اضافے کے ساتھ 106 بلین یورو کے برابر بنتا ہے اور اسی سال ستمبر میں چین کے پہلے طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے نے بھی کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے برعکس بھارت کا دفاعی بجٹ صرف 40 بلین یورو کے قریب بنتا ہے۔

جرمنی کی فاؤنڈیشن برائے سائنس اور سیاست کے جنوبی ایشیائی امور کے ماہر کرسٹیان واگنر کہتے ہیں کہ بھارت اور چین ایک دوسرے کو اپنی اپنی طاقت زیادہ تر بحری شعبے میں دکھا رہے ہیں۔ بھارت کے بحیرہء جنوبی چین سے وابستہ مفادات کا محور تیل کی تلاش کے وہ منصوبے ہیں جن پر بھارتی فرمیں وہاں کام کر رہی ہیں۔ امریکی اندازوں کے مطابق اس سمندری علاقے میں موجود تیل کے ذخائر کا حجم 213 بلین بیرل کے قریب بنتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ چین سے متعلق بھارت کی مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں گرم گرم بحث ابھی جاری ہے، جو چین کی بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی اہمیت کے پیش نظر جلد مکمل ہوتی نظر نہیں آتی۔

P. Esselborn, mm / G. Lucas, km