1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی حقوق کا سخاروف یورپی انعام کانگو کے ڈاکٹر نے وصول کر لیا

عاطف توقیر26 نومبر 2014

یورپی پارلیمان کا انتہائی معتبر سمجھا جانے والا انسانی حقوق کا انعام سخاروف رواں برس کانگو کے ایک ڈاکٹر ڈینس مُکویگے کے نام رہا، جنہوں نے جنسی زیادتی کی شکار ہزاروں خواتین کی مدد کی۔

https://p.dw.com/p/1Du55
تصویر: Reuters/V. Kessler

ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو سے تعلق رکھنے والے مُکویگے کو یہ انعام اشٹراس برگ میں یورپی پارلیمان کے صدر مارٹن شُلز نے پیش کیا۔ اس موقع پر شُلز نے کہا کہ مُکویگے نے اپنے ملک میں خواتین کی عظمت، انصاف اور امن کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

59 سالہ مُکویگے کے حوالے سے یورپی پارلیمان کے صدر نے مزید کہا، ’آپ نے بے شمار خواتین اور لڑکیوں کی داد رسی کی۔ ان کو سہارا دیا تاکہ ان کے زخمی جسم اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا اندمال ہو سکے۔‘

سخاروف انعام دینے کی اس تقریب میں کانگو کے ایک وفد نے پارلیمنٹری گیلری میں گیت گایا اور پرچم لہرائے۔

مُکویگے جن کے لیے سخاروف انعام کا اعلان روﺍں برس اکتوبر میں کیا گیا تھا، کانگو میں اجتماعی جنسی زیادتی کی شکار خواتین کا علاج کرتے آئے ہیں۔

Sacharow Preis an Denis Mukwege aus Kongo 26.11.2014
ان کے لیے اس انعام کا اعلان گزشہ ماہ کیا گیا تھاتصویر: AFP/Getty Images/F. Florin

  انہوں نے اس تقریب میں اس امید کا اظہار کیا کہ اس انعام سے ان کے ملک میں خواتین کو درپیش خطرات اور مشکلات کے خاتمے میں مدد ملے گی، ’’یہ انعام دے کر آپ نے کانگو کی خواتین کی جدوجہد عالمی منظر نامے پر جگہ دے دی ہے۔‘‘ ان کے خطاب کے دوران متعدد مواقع پر یورپی قانون سازوں نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

مُکویگے کا کہنا تھا، ’جنسی زیادتی کی شکار ہر خاتون میں مجھے اپنی بیوی، ہر معمر خاتون میں اپنی ماں اور ہر بچی میں اپنی بیٹی دکھائی دیتی ہے۔‘ خیال رہے کہ اس سے قبل یہ چہ مگوئیاں بھی کی جا رہی تھیں کہ ممکنہ طور پر مُکویگے کو نوبل انعام دیا جا سکتا ہے۔

سخاروف انعام کے لیے رنرز اپ یوکرائن میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والا ایک جہوریت نوازگروپ رہا۔ اس تقریب میں اس گروپ کے ارکان کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ سخاروف انعام کے سلسلے میں تیسرے نمبر پر آذربائجان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم خاتون لیلہ یونس رہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ باغی فورسز گزشتہ کئی دہائیوں سے معدنیات کی دولت سے مالا ملا  مشرقی کانگو میں قبضے کے لیے مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں اور اس دوران ہزاروں خواتین کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔