1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: غیرملکیوں کی نوکری کے لیے درخواستیں مسترد کیوں؟

عاطف بلوچ، روئٹرز
3 مارچ 2017

جرمنی میں گزشتہ برس غیرملکیوں کی جانب سے دائر کی جانے والی 27 ہزار درخواستوں کو رد کر دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ ان ملازمتوں کے لیے مقامی جرمن باشندے موجود تھے، یا یہ نوکریاں ’انتہائی کم اجرت‘ والی تھیں۔

https://p.dw.com/p/2YaTY
Irakischer Migrant in Deutschland
تصویر: DW/Hasrat-Nazimi

جرمن اخبار رائنشے پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی کی جانب سے ایک سوال پر وفاقی حکومت نے بتایا کہ گزشتہ برس ملک میں مقیم غیرملکیوں کی جانب سے ملازمت کی اجازت سے متعلق 27 ہزار درخواستیں جمع کرائی گئیں، جنہیں وفاقی ایجنسی برائے روزگار کی جانب سے مسترد کر دیا گیا۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے زیادہ تر درخواستیں مہاجرین کی جانب سے جمع کرائی گئیں، جب کہ کچھ جرمنی میں رہائش پذیر غیرملکی بھی تھے۔ بتایا گیا ہےکہ دو برس قبل کے مقابلے میں درخواستیں مسترد کرنے کا یہ تناسب دوگنا سے بھی زیادہ تھا۔

Deutschland Refugees Company for Crafts and Design
غیرملکیوں کی جانب سے ملازمت کی درخواستیں رد کی گئیںتصویر: picture-alliance/dpa/F. Zahn

جرمنی میں کسی ملازمت کے حصول کے لیے محکمہء ملازمت کی جانب سے ایک اجازت نامہ درکار ہوتا ہے، تاہم یہ ادارہ پہلے یہ دیکھتا ہے کہ کسی نوکری کے لیے کوئی ملکی شہری دستیاب ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ اس ادارے کی نگاہ اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ کسی کام کے لیے اجرت طے شدہ معیار کے مطابق ہے یا نہیں۔ اس ضابطے کو ’ترجیحی‘ ضابطہ قرار دیا جاتا ہے۔

گزشتہ برس اگست میں جرمنی کے 156 میں سے 133 اضلاع میں مہاجرین کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے اس ضابطے کو تین برسوں کے لیے معطل کیا گیا تھا۔ حکام کے مطابق اس طرح اب ملازمت کے لیے دائر کی جانے والی درخواستوں میں سے صرف چھ فیصد کو رد کیا گیا ہے۔ تاہم گرین پارٹی کے سیاست دان فولکر بیک کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بیک کے مطابق اس تناظر میں بیوروکریسی کی ترجیحات کو تمام ممکنہ حد تک کم کیا جانا چاہیے۔

یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں جرمنی میں قریب ایک ملین مہاجرین داخل ہوئے تھے۔ اس تناظر میں ان مہاجرین کے انضمام اور ان کے لیے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے کے معاملے پر جرمن حکومت متعدد قواعد متعارف کروا چکی ہے۔