یورپی بیت الخلاء، کئی مہاجرین کے لیے معمہ
17 فروری 2016جرمنی آنے والے لاکھوں تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ سے ہے۔ مختلف ثقافتوں سے آنے والے پناہ گزینوں جرمن رہائش گاہیں، دفتری نظام، کپڑے، کھانے اور جرمن زبان، سب کچھ نیا ہے۔ حکام نے اس ضمن میں تارکین وطن کے لیے کئی تربیتی پروگرام بھی ترتیب دے رکھے ہیں۔ ایک اہم مسئلے کی جانب کسی کا خیال نہیں گیا اور اس ضمن میں کوئی تربیتی پرگرام بھی نہیں بنایا گیا کہ مغربی طرز کے بیت الخلا کیسے استعمال کیا جاتے ہیں؟
میرکل کی مہاجرین دوست پالیسی دور اندیش ہے، ینکر
جرمنی سے مایوس پناہ گزینوں کی رضاکارانہ وطن واپسی
جرمن وفاقی ریاست باڈن ورٹمبرگ کے ایک چھوٹے سے قصبے ہارڈہائم کے میئر نے گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے تارکین وطن کو نصیحت کی تھی کہ وہ پارکوں میں جھاڑیوں کے پیچھے رفع حاجت سے پرہیز کریں۔ اس بیان کے بعد میئر کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
جرمنی میں پناہ گزینوں کے ہنگامی مراکز، خیمہ بستیوں اور بڑے ہالوں میں بنائے گئے کیمپوں میں ایک سے زائد اقسام کے فلش ٹائلٹس بنائے گئے ہیں۔ اس پر گنجائش سے زیادہ افراد کی موجودگی بھی بیت الخلا کے استعمال کہ پیچیدہ بنا رہی ہے۔
زیادہ تر مسلمان ممالک سے آنے والے تارکین وطن اپنے ممالک میں ’سکواٹ ٹائلٹ‘ یا اکڑوں بیٹھ کر استعمال کیے جانے والے بیت الخلا کے عادی ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے کبھی مغربی طرز کے بیت الخلا استعمال نہیں کیا۔ اسی وجہ سے کیمپوں میں ایسی صورت حال دیکھنے میں آتی ہے کہ پناہ گزین ٹائلٹ کی سیٹ پر بیٹھ کر یا فرش پر ہی اور بعض مرتبہ تو غسل خانے یا شاور میں ہی رفع حاجت کر لیتے ہیں اور فضلہ وہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
برلن میں پناہ گزینوں کے چھ مراکز کے ساتھ کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم سے وابستہ سماجی کارکن مانفریڈ نواک کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں بیت الخلا سے وابستہ مسائل کا انحصار اس بات پر ہے کہ پناہ گزینوں کا تعلق کس جگہ سے ہے۔ ہر جگہ صورت حال بہت خراب نہیں ہے لیکن بعض اوقات یہ ایک اہم اور سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔
مغربی ممالک میں رفع حاجت کے بعد صفائی ستھرائی کے لیے ٹِشو پیپر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر تارکین وطن اس مقصد کے لیے پانی کا استعمال کرتے ہیں۔
مہاجرین کے کئی مراکز میں اب مغربی ٹائلٹ استعمال کرنے کے لیے باتصویر معلومات کتابچے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ بعض جگہوں پر تو یہ معلومات عربی اور دیگر زبانوں میں بھی مہیا کی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود یورپی ٹائلٹ کو استعمال کرنا زیادہ تر تارکین وطن کے لیے ابھی تک ایک معمہ ہے۔