1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجرين کے حوالے سے پاليسی ميں کوئی تبديلی نہيں، جرمنی

عاصم سليم7 نومبر 2015

شامی پناہ گزينوں کو ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ ويزے نہ دينے کے حوالے سے جرمن وزير داخلہ کے ايک بيان کے بعد برلن حکومت نے يقين دہانی کرائی ہے کہ شامی مہاجرين کے حوالے سے پاليسی ميں کوئی تبديلی نہيں آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1H1VD
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

نيوز ايجنسی اے ايف پی کی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق حکومتی ترجمان سٹيفان زائبرٹ نے جمعے کے روز اپنے ايک بيان ميں کہا کہ وفاقی دفتر برائے ہجرت و مہاجرين کی پاليسی ميں تاحال کوئی تبديلی رونما نہيں ہوئی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ برلن حکومت نے شامی پناہ گزينوں کے ليے اب تک دروازے کھلے رکھے ہيں اور انہيں تحفظ کے ليے سب سے اونچا درجہ يعنی ’پرائمری پروٹيکشن‘ ديا گيا ہے۔ ان کے بقول شامی پناہ گزينوں کو تين سال کے ليے قيام کی اجازت اور ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ يا اپنے اہل خانہ کو بھی جرمنی بلانے کی سہوليات ميسر ہيں۔ زائبرٹ نے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ اپنے پيغام ميں واضح کيا کہ تاحال اسی پاليسی پر عملدرآمد جاری ہے۔

برلن حکومت کے ترجمان کی جانب سے جمعے کے روز يہ بيان اس وقت جاری کيا گيا، جب اس سے قبل جرمن وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر نے ايک مقامی ريڈيو اسٹيشن پر بات چيت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شامی پناہ گزينوں کو جرمنی ميں قيام کے ليے کم مدت کے ويزے ديے جائيں گے اور انہيں اپنے اہل خانہ کو يہاں بلانے کا حق بھی نہيں ہو گا۔ ڈے ميزيئر نے يہ بات جمعے کی صبح ’ڈوئچ لانڈ ريڈيو‘ پر بات کرتے ہوئے کہی۔ قبل ازيں جرمن اخبار ’فرانکفرٹر الگمائنے سائٹنگ‘ اس بارے ميں رپورٹ شائع کر چکا ہے کہ جرمن حکومت مہاجرين سے متعلق اپنی پاليسی ميں تبديلی پر غور کر رہی ہے۔

Infografik Verteilung syrischer Flüchtlinge 2011-2015 Englisch

کئی اندازوں کے مطابق جرمنی ميں رواں سال کے اختتام تک ايک ملين مہاجرين کی آمد متوقع ہے۔ اگرچہ چانسلر انگيلا ميرکل اب تک پناہ گزينوں کے ليے ’کھلے دل اور کھلے دروازوں‘ کی پاليسی پر عملدرآمد کرتی آئی ہيں تاہم چند انتہائی دائيں بازو کے گروپوں کے شديد احتجاج، انتظامی مسائل اور اپنے ہی اتحاديوں کی جانب سے مخالفت کے سبب وہ پچھلے دنوں کافی دباؤ کا شکار رہی ہيں۔ جرمنی کی مخلوط حکومت ميں شامل اتحادی جماعتوں کے مابين دراڑوں کے نتيجے ميں چانسلر ميرکل نے پہلے گزشتہ اتوار کو اور پھر اس ہفتے جمعرات کے روز اپنے اتحاديوں سے بات چيت کی، جس ميں ايک معاہدے پر اتفاق ہو گيا ہے۔

اس معاہدے کے تحت سياسی پناہ کے ناکام درخواست دہندگان کی جلد از جلد ملک بدری کو يقينی بنايا جائے گا۔ ملاقات کے بعد ہونے والی پريس کانفرنس ميں بھی ميرکل اور اتحادی جماعتوں کے سربراہان نے پاليسی ميں ترميم کے حوالے سے کوئی بات نہيں کی تھی۔ ’فرانکفرٹر الگمائنے سائٹنگ‘ کے مطابق رواں سال اگست ميں شام سے تعلق رکھنے والے پناہ گزينوں نے سياسی پناہ کی 55,600 درخواستيں جمع کرائيں، جن ميں سے 38,600 منظور کی جا چکی ہيں جبکہ صرف 53 کو جزوی سياسی پناہ ملی ہے۔