1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرخندہ کے قاتل سزائے موت سے بچ نکلے

عاطف توقیر2 جولائی 2015

افغانستان کی ایک عدالت نے فرخندہ نامی خاتون کو تشدد کے بعد قتل کر دینے والے چار افراد کو سنائی گئی سزائے موت ختم کر دی ہے۔ ان افراد نے اس خاتون کو توہینِ قرآن کا الزام لگا کر قتل کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1Frri
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai

افغان دارالحکومت کابل کی ایک عدالت نے فرخندہ کے قتل کے آٹھ مجرموں کو دی گئی سزائے موت کو قید کی سزاؤں میں تبدیل کر دیا ہے۔ جمعرات کے روز افغان میڈیا اور عدلیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ ان مجرمان کی موت کی سزا کو ختم کر کے ان میں سے تین کو بیس بیس برس جب کہ چوتھے کو دَس برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ قرآن کی بے حرمتی کا الزام عائد کر کے افغان دارالحکومت کابل میں مشتعل افراد نے فرخندہ کو شدید تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا تھا، جب کہ اس کی لاش کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف افغانستان میں مظاہرے بھی ہوئے تھے، جب کہ معاشرتی سطح پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے بحث بھی شروع ہو گئی تھی۔

فرخندہ کو تشدد کر کے قتل کرنے کے الزام میں ان چار افراد کو مئی میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جب کہ انہوں نے اس سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

Afghanistan Lynchmord an Frau Beerdigung
اس واقعے کے بعد خواتین نے شدید احتجاج کیا تھاتصویر: Reuters/M. Ismail

ان افراد کو سزا، اس واقعے کی بنائی گئی موبائل فون ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر دی گئی تھی۔ یہ فوٹیج مارچ میں عدالت میں دکھائی گئی تھی۔

اس واقعے کے بعد افغانستان میں مذہبی بنیادوں پر پائی جانے والی خلیج کے باعث ایک واضح تقسیم دکھائی دی تھی، جس میں ایک طرف خواتین کے حقوق اور اس واقعے کے خلاف آواز اٹھانے والے تھے اور دوسری جانب سخت نظریات کے حامل مذہبی رہنما، جو اس واقعے کو ’اسلام کا دفاع‘ قرار دے رہے تھے۔

بعد میں عدالت میں یہ بات بھی ثابت ہو گئی تھی کہ فرخندہ پر قرآن کی بے حرمتی کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد حراست میں لیے گئے زیادہ تر افراد وہ تھے، جنہوں نے اس واقعے کی فوٹیج اپنے سوشل میڈیا صفحات پر پوسٹ کی تھی، جس میں اس واقعے میں شامل ہونے کا اعلان کیا گیا تھا۔

افغانستان کے ٹولو ٹی نے ان مجرمان کی سزا میں تخفیف کی خبر سب سے پہلے دی، تاہم اب اس مقدمے سے آگاہی رکھنے والے ایک جج نے بھی اس نئے عدالتی فیصلے کی تصدیق کر دی ہے۔

اپنا نام ظاہر کیے بغیر اس جج کا کہنا تھا کہ وکلائے صفائی فیصلے سے مطمئن نہیں تھے، اس لیے اس سزا میں تخفیف کر دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب یہ مقدمہ ایک اور عدالت میں جائے گا اور وہ عدالت بھی اس سزا کو تبدیل کر سکتی ہے۔