1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان شہری فرخندہ پرالزام جھوٹا تھا، چار افراد کو سزائے موت

عدنان اسحاق6 مئی 2015

ایک افغان عدالت نے آج بدھ کے روز چار افراد کو ایک خاتون کو سرعام ہلاک کرنے کے جرم میں سزائے موت سنا دی۔ افغان شہری فرخندہ کو مارچ میں ایک مشتعل ہجوم نے قتل کر کے اس کی لاش جلا دی تھی۔

https://p.dw.com/p/1FKme
تصویر: picture-alliance/AA

اسی سال انیس مارچ کو پیش آنے والے اس واقعے میں ایک مشتعل ہجوم نے ستائیس سالہ فرخندہ نامی خاتون کو سرعام ڈنڈے اور پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس جرم میں ملوث ہونے کے شبے میں 49 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا، جن میں انیس پولیس افسران بھی شامل ہیں۔ کابل کی ایک عدالت کے جج صفی اللہ مجددی نے ان میں سے چار ملزمان کو آج سزائے موت سنا دی۔ آٹھ دیگر ملزمان کو سولہ سولہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ مزید اٹھارہ افراد کو باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں زیر حراست باقی ملزمان کے بارے میں فیصلہ آئندہ اتوار کے روز سنایا جائے گا۔

سزا پانے والے افراد اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ان مجرمان پر حملہ کرنے، قتل اور دیگر افراد کو اشتعال دلانے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ پولیس افسران پر اپنی ذمہ داریوں سے انحراف اور حملے کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کرنے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ گزشتہ ہفتے کے روز اس مقدمے کا سماعت شروع ہوئی تھی، جس کی تکمیل پر عدالت نے آج اپنا فیصلہ سنایا۔ یہ افغانستان کے سست عدالتی نظام کے حوالے سے ایک منفرد مقدمہ تھا کہ جس کا فیصلہ اتنی جلدی سے سنایا گیا ہے۔

Afghanistan Protest und Demonstration Gedenken an Farkhunda
تصویر: DW/H. Sirat

فرخندہ پر قرآن کا ایک نسخہ نذر آتش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ قتل کے اس واقعے کی ایک ویڈیو بھی سماجی ویب سائٹس پر منظر عام پر آئی تھی۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تب فرخندہ کو کس طرح مارا پیٹا جا رہا تھا، اسے ایک کار سے ٹکر بھی ماری گئی تھی اور کس طرح قتل کے بعد اس کی جلی ہوئی لاش کو ایک قریبی نہر میں پھینکا گیا تھا۔

فرخندہ کے اس بہیمانہ قتل پر بہت سے افغان حلقوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا تھا جبکہ کئی مذہبی شخصیات کا کہنا تھا کہ اگر مقتولہ نے قرآن کی بے حرمتی کی تھی، تو اس کی یہ سزا بالکل جائز تھی۔ بعد ازاں صدر اشرف غنی کی جانب سے قائم کی جانے والی ایک تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا، ’’فرخندہ نے مسلمانوں کی مذہبی کتاب کو نذر آتش نہیں کیا تھا۔‘‘

اسی دوران ایک امریکی رپورٹ میں افغانستان میں عام شہریوں کو انصاف تک رسائی حاصل نہ ہونے کے باعث ملکی عدالتی نظام پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق آئین میں صنفی مساوات کی یقین دہانی کے باوجود عدالتوں تک کی جانب سے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔

فرخندہ پر حملہ اور اس خاتون کا قتل افغان معاشرے میں خواتین کے کم تر مقام کو بھی ظاہر کرتا ہے اور خواتین کے خلاف جرائم کے مرتکب مجرم اکثر سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔