1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسیان سربراہی اجلاس: چین پر تنقید

امتیاز احمد27 اپریل 2015

آسیان کے سربراہی اجلاس کے آغاز پر ہی چین کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بیجنگ اور اُس کے جنوب ایشیائی پڑوسی ممالک کے مابین جنوبی سمندری علاقوں کی ملکیت کا تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FFdy
Malaysia ASEAN Gipfel in Kuala Lumpur
تصویر: AFP/Getty Images/M. Rasfan

جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی دس رکنی تنظیم کے سربراہان کا اجلاس آج سے ملائیشیا کی میزبانی میں دارالحکومت کوالالمپور میں شروع ہو گیا ہے۔ افتتاحی اجلاس سے میزبان ملک کے وزیراعظم نجیب رزاق نے خطاب کیا۔ انہوں نے رکن ملکوں پر زور دیا کہ بحیرہ جنوبی چین کے علاقائی تنازعات کو باہمی گفت و شنید سے حل کیا جانا چاہیے۔ رزاق نے بحیرہ جنوبی چین میں پائے جانے والے تنازعات کی شدت میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے اضافے پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ آسیان کے رکن ملکوں کی تعداد دس ہے اور اِن میں برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، میانمار، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویٹ نام شامل ہیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق سربراہی اجلاس کے خاتمے پر جو اعلامیہ جاری کیا جائے گا، اس میں خاص طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’بحیرہ جنوبی چین جزائر کی ملکیت کے تنازعات کی وجہ سے اعتماد میں کمی اور عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے، جو امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘ روئٹرز کے مطابق اس اعلامیے چین کا نام واضح طور پر تو نہیں لکھا گیا، لیکن اشارہ چین ہی کی طرف کیا گیا ہے۔

آسیان کے اتحاد میں دراڑیں 2012ء سے نظر آنا شروع ہوئیں، جب کمبوڈیا کے دارالحکومت پنوم پنہ میں آسیان کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اس تنظیم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی اختتامی اعلامیے کے بغیر اختتام پذیر ہو گیا۔ میزبان کمبوڈیا نے غالباً اپنے اہم ترین ساتھی ملک چین کی خواہش پر ہر ایسی مشترکہ کوشش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا، جس کا تعلق بحیرہٴ جنوبی چین کے تنازعے کو مذاکراتی ایجنڈے کا حصہ بنانے سے تھا۔ اس کے برعکس ویت نام، فلپائن، ملائیشیا ا ور برونائی ہر صورت میں اس تنازعے سے متعلق ایک پیراگراف کو اعلامیے کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ جرمن ماہر ہائیڈوک کے مطابق ’2012ء نے اس امر کی نشاندہی کر دی کہ آسیان کے اندر ٹوٹ پھوٹ بڑھتی جا رہی ہے‘۔

اگرچہ 2012ء کے بعد سے اس طرح کا کوئی بڑا واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے لیکن اُن تین شعبوں یعنی سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں پیشرفت کی رفتار ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے، جو آسیان کے قیام کے وقت اس تنظیم کے پیشِ نظر تھے۔ جرمن ماہر ہائیڈوک کے خیال میں ’جہاں اقتصادی شعبے میں کافی زیادہ پیشرفت ہوئی ہے، وہاں سیاسی شعبے میں صورتِ حال ملی جلی ہے جبکہ سماجی شعبے میں پیشرفت نہ ہونے کے برابر ہے‘۔